بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کے اپوزیشن کا ساتھ چھوڑ کر بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ اتحاد کے فیصلے نے بھارت کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔
سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ ان کے اس قدم کے اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
واضح رہے کہ نتیش کمار نے بہار میں ’راشٹریہ جنتا دل‘ (آر جے ڈی) اور کانگریس کے ساتھ قائم ہونے والی مخلوط حکومت سے اتوار کو استعفیٰ دے کر بی جے پی کے ساتھ مل کر نئی حکومت بنا لی تھی۔
یہ نتیش کمار ہی تھے جنھوں نے پارلیمانی انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی کو شکست دینے کے لیے گزشتہ سال اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ انھوں نے جون 2023 میں پٹنہ میں تقریباً ڈیڑھ درجن اپوزیشن جماعتوں کے پہلے اجلاس کی میزبانی کی تھی۔
نتیش کمار نے 2015 کا اسمبلی الیکشن 'آر جے ڈی' کے ساتھ مل کر لڑا تھا اور اس کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی تھی۔ لیکن انہوں نے 2017 میں آر جے ڈی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔
انھوں نے 2020 کا اسمبلی الیکشن بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا اور کامیاب ہونے کے بعد اس کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی۔ تاہم انھوں نے 2022 میں بی جے پی سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک بار پھر آر جے ڈی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
لیکن 28 جنوری 2024 کو انھوں نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ نہ تو آ ر جے ڈی کے ساتھ قائم مخلوط حکومت میں کوئی کام ہو رہا ہے اور نہ ہی اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں کوئی پیش رفت ہو رہی ہے، استعفیٰ دے دیا اور شام کے وقت بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ اس طرح انھوں نے ریکارڈ نویں مرتبہ وزیرِ اعلیٰ کا حلف اٹھایا۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نتیش کمار کے اس قدم سے اپوزیشن کے اتحاد کو دھچکہ پہنچا ہے اور اب 2024 میں بی جے پی کو شکست دینا مشکل ہو گیا ہے۔
بعض مبصرین اس خیال کے حامی ہیں کہ نتیش کمار کا ماضی ایسا رہا ہے کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور اب جب کہ وہ ’انڈیا‘ اتحاد سے الگ ہو گئے ہیں تو اسے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بنرجی اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ اپنی ریاستوں میں کانگریس سے اتحاد کے بجائے تنہا انتخابات لڑیں گے، اپوزیشن کا اتحاد کمزور ہوا ہے۔
ادھر اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اعلان کیا ہے کہ وہ ریاست کی 80 سیٹوں میں سے کانگریس کو صرف 11 سیٹیں دے سکتے ہیں۔جب کہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے تنہا انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
'بہار میں اپوزیشن کا اتحاد بی جے پی کے لیے چیلنج تھا'
سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بہار میں اپوزیشن کا اتحاد بی جے پی کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا تھا اور ایسا کہا جا رہا تھا کہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی سیٹیں بہت کم ہو جائیں گی۔
اُن کے بقول بی جے پی کی کوشش تھی کہ وہاں کسی بڑے اتحادی کو اپنے ساتھ لایا جائے۔ اسی لیے اس نے نتیش کمار سے اتحاد کر لیا۔
ان کے بقول نتیش کمار کی مجبوری یہ تھی کہ مخلوط حکومت میں ان کی پارٹی سیٹوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھی۔ بڑی پارٹی آر جے ڈی تھی۔
دیگر مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا خیال تھا کہ وہ نتیش کے بغیر ریاست میں لوک سبھا کی اتنی نشستیں نہیں جیت سکیں گے جتنی کہ 2019 میں جیتی تھیں۔
بعض ماہرین کے مطابق نتیش کمار کا خیال تھا کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا ان سے اتحاد کیے بغیر وہ 2025 کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی نہیں مل سکتی۔
واضح رہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور جنتا دل یو نے مل کر 40 میں سے 39 سیٹیں جیتی تھیں۔ کانگریس کو ایک سیٹ ملی تھی۔ آر جے ڈی کو ایک بھی نہیں۔
تجزیہ کار انل کمار کے مطابق وزیرِ اعظم مودی بہار میں اس پسماندہ ووٹ کو اپنے حق میں کرنا چاہتے تھے جو نتیش کمار کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے نتیش کمار سے اتحاد کیا۔
'انڈیا' کا مستقبل کیا ہو گا؟
نتیش کمار کے اس قدم سے اپوزیشن کے اتحاد پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کی ملی جلی رائے ہے۔
انل کمار کہتے ہیں کہ اس سے کم از کم بہار میں اپوزیشن اتحاد کو نقصان ہو گا۔ نتیش کی موجودگی میں اس کو جتنی سیٹیں ملتیں اب نہیں ملیں گی۔
ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اگر انتخابات کے اعلان یا اپوزیشن جماعتوں میں سیٹوں پر مفاہمت کے بعد نتیش کمار یہ قدم اٹھاتے تو ’انڈیا‘ اتحاد کو زیادہ نقصان ہوتا۔ اس وقت انڈیا اتحاد کے رہنما اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس سے ہونے والے سیاسی نقصان کو کم کر سکیں۔
بعض میڈیا رپورٹس میں کانگریس کے اندرونی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ نتیش کمار بی جے پی کے اشارے پر اپوزیشن اتحاد کی کوشش کر رہے تھے۔ اگر انھیں کنوینر بنا دیا جاتا اور اس کے بعد وہ خیمہ بدل لیتے تو انڈیا اتحاد کو زیادہ نقصان ہوتا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تازہ صورت حال میں کانگریس کو نقصان ہو گا۔ یاد رہے کہ نتیش کمار نے ’انڈیا‘ بلاک میں عدم پیش رفت کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
کانگریس کے سینئر رہنما آچاریہ پرمود کرشنم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہاں نتیش کمار کی ’انڈیا‘ سے علیحدگی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ نتیش اپوزیشن اتحاد کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ جانے والے ہیں۔ لیکن اتحاد کو بچائے رکھنے کی خاطر وہ خاموش رہے۔ یاد رہے کہ کھڑگے نے نتیش کمار سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے۔
’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) کے صدر اور سینئر سیاست داں شرد پوار نے نتیش کے اس فیصلے کی مذمت کی اور کہا کہ عوام ان کو سبق سکھائیں گے۔
مختلف اخباروں کے ایڈیٹر رہ چکے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شرون گرگ نے ایک یو ٹیوب چینل ’فور پی ایم نیوز نیٹ ورک‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے جو ایودھیا کارڈ کھیلا تھا اس کا اثر زائل ہوتا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں سے ایودھیا کی خبریں غائب ہو گئی ہیں۔ بی جے پی اس بات سے پریشان تھی کہ وہ 2024 میں کیسے کامیابی حاصل کرے۔
ان کے مطابق بی جے پی نے اسی لیے نتیش کمار سے ہاتھ ملایا ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ سکے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اب دیگر ریاستوں میں بھی اسی قسم کی کوشش کرے گی۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی حکومت گرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ان کے سات ارکان اسمبلی کو 25-25 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی ہے۔
بی جے پی نے اس الزام کے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کیجری وال کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فورم