رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کی ملک بھر میں ریلیوں کی کوشش، ہزاروں کارکنان کے خلاف مقدمات درج


پولیس نے تحریکِ انصاف کے کئی درجن کارکنان کو گرفتار بھی کیا ہے۔
پولیس نے تحریکِ انصاف کے کئی درجن کارکنان کو گرفتار بھی کیا ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں انتخابات سے قبل مبینہ طور پر بغیر اجازت ریلیاں نکالنے اور پولیس سے جھڑپوں کے الزامات کے تحت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ہزاروں کارکنان پر مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

کراچی میں اتوار کو تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد تھانہ فریئر میں پی ٹی آئی کے 75 مقامی رہنماؤں اور ساڑھے چار ہزار کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مقدمے میں قومی اسمبلی کے امیدوار خرم شیر زمان اور فہیم خان بھی شامل ہیں جب کہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کارکن اتوار کو کراچی کے مصروف کاروباری علاقے تین تلوار پر جمع ہوئے تھے اور اس دوران کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سابق صوبائی رکن اسمبلی خرم شیر زمان کا جو گزشتہ روز کراچی میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم ریلی کی قیادت کر رہے تھے لیکن جب پولیس اور سیاسی کارکنان کے درمیان کشیدگی بڑھی تو وہ وہاں سے نامعلوم مقام پر چلے گئے۔

خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ ہم پچھلے 3 ماہ سے جلسوں، ریلیوں کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ لیکن ہماری درخواست تک قبول نہیں کی جارہی۔

مقامی میڈیا کے مطابق راولپنڈی میں بھی کئی تھانوں میں تحریکِ انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق تھانہ چونترہ، تھانہ صدر بیرونی اور تھانہ جاتلی میں درج مقدمات میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور اسلحے کی نمائش سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

پنجاب پولیس نے راولپنڈی سے اب مقدمات میں مطلوب چھ مبینہ ملزمان کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

لاہور، بھلوال، وزیرِ آباد اور سیالکوٹ سے بھی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

لاہور میں لبرٹی چوک میں نکالے جانے والی ریلی میں شریک دو درجن سے زائد افراد کو پولیس نے حراست میں لیا۔

ریلی کے شرکا کا کہنا تھا کہ پرامن ریلی نکالنا ان کا حق ہے۔ الیکشن میں چند روز باقی ہیں اِس لیے وہ انتخابی ریلی نکال رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق لاہور کے علاقے لبرٹی چوک اور اِس کے اطراف میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کے سبب چار سے زیادہ افراد کو جمعے ہونے نہیں دیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن نے اِس سلسلے میں پولیس حکام کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی ریلی یا اجتماع سے قبل پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔

پولیس حکام کے مطابق پی ٹی آئی ریلی کے منتظمین نے ریلی کی پیشگی اجازت نہیں لی تھی۔ جس پر قانونی کارروائی کی گئی۔

پشاور، بنوں سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

قبائلی ضلع جمرود میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 27 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اقبال آفریدی اور پی کے 70 سے آزاد امیدوار سہیل آفریدی سمیت پی ٹی آئی کے 100 کارکنوں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان افراد کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں کیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف کی قیادت نے اتوار کو ریلی و جلسے کے لیے پیشگی اجازت نہیں لی۔ اس ریلی کے دوران کئی گھنٹوں تک پاکستان افغانستان شاہراہ بند رہی۔

تحریکِ انصاف کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اسے انتخابی مہم کے لیے آزادانہ ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا۔ نگراں حکومت اور انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام اقدامات قانون کے مطابق کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے دو ہفتے قبل تحریک انصاف کے انتخابی نشان 'بلے' سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہو گئی تھی اور اب قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم آزاد امیدواروں کا بھی الزام ہے کہ انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں مل رہی۔

لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کے مطابق اِس صورت حال پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِس پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔

ایچ آر سی پی کے چیئر پرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے اہم مسئلہ انتخابی عمل میں کُھلے عام ساز باز کا ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کے منظم طریقے سے حصّے بخرے کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی کسی بھی فریق کے تشدد کو جائز قرار نہیں دیتا مگر ریاست کا ردِعمل" اِنتہائی غیرمناسب اور غیرقانونی ہے"۔

ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بہت کم شواہد ہیں کہ اگلے انتخابات آزاد، شفاف اور معتبر ہوں گے۔

واضح رہے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اِس وقت جیل میں ہیں۔ جیل سے ہدایات کے مطابق اُنہوں نے اتوار کو پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو ملک بھر میں پرامن انتخابی ریلیاں نکالنے کی ہدایت کی تھی۔

ان کی ہدایت پر سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو پولیس نے ریلیاں نکالنے سے روک دیا جب کہ متعدد افراد کو حراست میں لے لیا۔

کم وبیش ایسی ہی صورتِ حال خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی رہی جس کے باعث پی ٹی آئی ملک بھر میں کسی بھی جگہ بڑی ریلی نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

سابق گورنر پنجاب میاں اظہر رہا

پی ٹی آئی کے پنجاب کے نگراں صدر حماد اظہر کے والد اور سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کو پولیس نے پیر کو رہا کر دیا ہے۔ میاں اظہر کو اتوار کو پنجاب پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ان کے 82 برس کے والد کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ایک انتخابی ریلی کی قیادت کرنا چاہتے تھے۔

واضح رہے کہ میاں اظہر لاہور کے حلقہ این اے 129 سے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں اور انہیں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ میاں اظہر کو حفاظتی بانڈز لے کر رہا کیا گیا ہے۔

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی علاقے میں بغیر اجازت ریلی اور جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

صنم جاوید ضمانت ملتے ہی ایک اور مقدمے میں گرفتار

لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت منظور ہونے کے فوری بعد پی ٹی آئی کی کارکن صنم جاوید کو ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پیر کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن تھانے میں مسلم لیگ (ن) کا دفتر جلانے کے مقدمے میں عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے صنم جاوید کو ضمانت دی۔

واضح رہے کہ صنم جاوید مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کے مدِ مقابل آزاد امیدوار کی حیثیت سے لاہور کے حلقہ این اے 119 سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 سے امیدوار ہیں۔

صنم جاوید کو ضمانت ملنے کے فوری بعد پیر کو پنجاب پولیس نے لاہور کے تھانہ شادمان میں درج ایک مقدمے میں گرفتار کر لیا۔

تھانہ شادمان میں صنم جاوید کے خلاف نو مئی 2023 کو احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہے۔

صنم جاوید کو صرف تین دن قبل سپریم کورٹ نے انتخابات لڑنے کی اجازت دی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابقہ چیئرپرسن اور ماہرِ قانون حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ کسی کے ساتھ کوئی بھی ایسا اقدام جس میں اُن کے جمہوری حقوق پامال ہوں وہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے سوالات اُٹھیں گے۔ اِس کے علاوہ بہت سے اداروں کے کردار پر آواز اُٹھے گی۔ لیکن اِس کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے کرداروں پر بھی آوازیں اٹھیں گی۔

پاکستان میں عام انتخابات ہونے میں اب چند دن ہی باقی ہیں ایسے میں ملک بھر میں انتخابی جلسے، ریلیوں اور ملاقاتوں میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 28 جنوری کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی نے باغ جناح میں ایک بڑا سیاسی جلسہ کیا۔ اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی نے لیاری کے علاقے میں آصفہ بھٹو کی قیادت میں ایک ریلی نکالی جبکہ ایم کیو ایم (پاکستان) نے ضلع وسطی اور مسلم لیگ نون ضلع جنوبی میں انتخابی مہم میں مصروف دکھائی دی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا فیصلہ قانونی ہو یا آئینی انہوں نے صرف ایک پارٹی کو ڈی فرنچائز نہیں کیا۔ انہوں نے دراصل ان کے ڈیڑھ دو کروڑ حامیوں کو الیکشن سے باہر کردیا ہے۔

ان کے بقول بظاہر تو لگ رہا ہے کہ عمران خان کا مقابلہ ہی نہیں کیا گیا، نہ پی ٹی آئی سے مقابلہ کیا گیا اور مقابلے سے پہلے ہی اسے الیکشن سے باہر کردیا گیا۔ کسی کی سیاست یا الیکشن سے باہر کر کے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ چاہے آپ قوانین کے تحت یا عدلیہ کے ذریعے اسے باہر کر دیں یا زور زبردستی کریں۔

حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی موجودہ صورتِ حال میں انتخابات کا ہونا ضروری ہے۔ جس سے ملک کو آگے جانا ہے تا کہ ملک میں پامالی ختم ہو۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ سب سے بڑی پامالی تو یہ ہے کہ جو نگران حکومت بنائی ہے "اُس کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں"۔

اُن کا کہنا تھا کہ "نو مئی کے بعد سے عسکری قوتوں کی دوبارہ انٹری تشویش کا باعث ہے"۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو مائنس کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا ان کے بانی کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ پھر بھی اس پارٹی کی مقبولیت ختم نہیں ہوئی۔ تو تلوار کا نشان لے لیا گیا۔

ان کے بقول اس کے بعد بھی مقبولیت کم نہ ہوئی۔ تو غیر جماعتی بنیادوں پر تمام سیاسی جماعتوں سے ان کے انتخابی نشان واپس لے لیے گئے اور جماعتوں کو ہی باہر کردیا گیا تو پیپلز پارٹی ختم ہو گئی؟ وہ پھر نظر آئی اگر اسے زوال ہوا تو اس کی کارکردگی کی وجہ سے ہوا اور یہی ایک طریقہ ہے کہ لوگ آپ کو کارکردگی کی بنیاد پر حکومت میں لائیں یا رد کر دیں۔

XS
SM
MD
LG