پاکستان میں عام انتخابات ہو گئے۔ اور جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی کوئی بھی سیاسی جماعت اتنی بھی اکثریت حاصل نہ کر سکی کہ حکومت بنا سکے۔ البتہ وہ آزاد امیدوار جن کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ جسے بہ حیثیت جماعت الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ بڑی تعداد میں منتخب ہوئے ہیں۔
اب ایک جانب تو مسلم لیگ نون ہے جو پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اور دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ہے جس کا دعویٰ ہے کہ بقول اس کے دھاندلی کے ذریعے اسے اس کی بہت سی نشستوں سے محروم کر دیا گیا ہے اور جتنی پارلیمانی نشستیں اس نے حاصل کی ہیں وہ اس سے زیادہ ہیں جتنی حکومت بنانے کے لیے درکار ہیں۔
کون صحیح ہے اور کون غلط ہے۔ اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں عدالتوں میں ہی ہوسکے گا۔ لیکن اس سب سے قطع نظر یہ حقیقت بھی اب واضح ہو گئی ہے کہ وفاق میں جو بھی حکومت بنے گی وہ ایک نسبتا کمزور مخلوط حکومت ہو گی جسے ملک کے معاشی بحران کو ختم کرنے اور سیاسی اور معاشی استحکام لانے کے لیے وہ مشکل فیصلے کرنے میں اس قدر عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی جو ایسے فیصلوں کی تائید کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
پاکستان کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس الیکشن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
ڈاکٹر مقتدر خان کا تعلق ڈیلاویر یونیورسٹی سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انتخاب پاکستانی عوام کی جیت ہے اور اسٹبلشمنٹ کی شکست ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کی یا ان کی آئیڈیالوجی کی جیت ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ جس وقت عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا، اس وقت وہ اتنے مقبول نہ تھے لیکن بعد کے دنوں میں جو کچھ ہوا، جس طرح عمران کی پارٹی کو منظر سے ہٹایا گیا، انہیں دیوار سے لگادیا گیا، اس سے عام آدمی میں غصہ اور عمران خان کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوئی جس کا عکس ہم ان انتخابات کے نتائج میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس وقت جو آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں اور جن میں سے بھاری اکثریت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔ ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ان جماعتوں کی جانب سے کوششیں ہو رہی ہیں جو حکومت بنانا چاہتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں ہارس ٹریڈنگ کو فروغ حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کمزور مخلوط حکومت ہونے کی صورت میں اسٹبلشمنٹ کو حکومت پر زیادہ بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے
ڈاکٹر مقتدر خاں آئندہ دنوں میں پاکستان کا یہ ہی منظر نامہ دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر حکومت کمزور رہی، پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، ملک میں امن امان مسئلہ بنا رہا تو کار سرکار میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور بڑھ جائے گا۔
خاص طور سے معیشت کے حوالے سے جو مشکل فیصلے لینے ہیں، کیونکہ مارچ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے پھر مذاکرات ہونے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا مسلم لیگ نواز کی مخلوط حکومت جسے عوام کی وہ حمایت حاصل نہیں ہو گی جو ضروری ہے، وہ یہ فیصلے کر سکے گی۔
انہوں نے بھارت کی مثال دیتے ہوئیے کہا کہ اس کی ترقی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایک پارٹی کو پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے اور پارلیمان کے ذریعے عوام کا اعتماد حاصل ہے اور دنیا ان پر بھروسہ کر سکتی ہے۔ جب کہ پاکستان میں کمزور مخلوط حکومت کی صورت میں ہر فیصلے کے لیے ہارس ٹریڈنگ ہو گی۔ حکومت کو سہارا دینے والی چھوٹی پارٹیاں قدم قدم پر اپنے مطالبات منوائیں گی اور حکومت کرنے والی بڑی پارٹی کو یرغمال بنائے رکھیں گی۔
ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام اور یکسوئی کے بغیر معاشی استحکام کا حصول ممکن نہیں ہے اور کم از کم فوری طور پر یہ نظر نہیں آ رہا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وہاں سیاسی استحکام آ سکے گا۔
جہانگیر خٹک کا تعلق نیویارک کی یونیورسٹی کے کمیونٹی میڈیا سینٹر سے ہے جس کے وہ ڈائریکٹر ہیں اور معروف تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئیے ان کا کہنا تھا دنیا آٹھ فروری سے اب تک جو کچھ دیکھتی آ رہی ہے اور عالمی میڈیا پاکستانی انتخابات کے بارے میں جو لکھ رہا ہے، اگر وہی صورت حال جاری رہی تو بقول ان کے نہ سیاسی استحکام حاصل ہو سکے گا اور نہ معاشی۔
ان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ ان انتخابات کا جتنا نقصان پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو ہوا ہے اور کسی کو نہیں ہوا اور عالمی میڈیا نے کھل کر انتخابات میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے بارے میں لکھا تو پھر ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کسی بھی حکومت کو دنیا میں کس نظر سے دیکھا جائے گا اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ الیکشن میں یا ووٹ ڈالنے میں نہیں ہے بلک مسئلہ ووٹوں کی گنتی میں ہے۔ جس سے غلط طور پر فائدہ اٹھایا گیا۔ چنانچہ دنیا میں اپنا اعتبار قائم کرنے اور یہ باور کرانے کے لیے کہ جو بھی حکومت بنا رہا ہے وہ صحیح عوامی مینڈیٹ لے کر آیا ہے اس غلطی کا ازالہ کرنا ہو گا۔ ورنہ نئی حکومت کو نہ دنیا میں پذیرائی ملے گی۔ نہ سرمایہ کاری آئے گی اور نہ معاشی استحکام۔
انہوں نے کہا کہ اب معاملہ عدالتوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ثبوتوں کو دیکھ کر کسی دباؤ میں آئے بغیر انصاف پر مبنی فیصلے دیں تاکہ جن کو حقیقت میں عوامی مینڈیٹ ملا ہے ان ہی کی حکومت بن سکے۔
'سیاسی کھلاڑیوں میں سخت سودے بازی ہو گی۔ ہر کوئی زیادہ حصہ لینا چاہے گا'
خبررساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر، دھاندلی کے الزامات اور کوئی واضح فاتح سامنے نہ آنے کی وجہ سے صورت حال بدستور غیر یقینی ہے اور سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔
ایک تاجر وسیم قریشی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ انتخابات منصفانہ تھے۔ میرے خیال میں نتائج میں گڑبڑ کی گئی ہے۔ اس طرح کے حالات میں جو بھی حکومت بنے گی، وہ ڈیڑھ دو سال سے زیادہ نہیں چل سکتی۔
صحافی اور تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان پارلیمنٹ کے اندر ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام نہیں کر سکتے۔ انہیں یا تو ایک الگ نیا گروپ بنانا ہو گا یا کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہونا پڑے گا۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کے پاس 93 کے لگ بھگ نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ارکان کی تعداد 75 ہے جب کہ کچھ آزاد ارکان ان کے ساتھ شامل ہو رہے رہے۔ پیپلز پارٹی کے 54 ارکان ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار میں جانے کی خواہش مند پارٹیوں کے درمیان اقتدار میں شراکت کا کیا فارمولہ طے پاتا ہے۔
تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مخلوط حکومت ہو گی جو آنے والے دنوں اور ہفتوں میں تشکیل پائے گی۔ توقع یہ ہے کہ سیاسی کھلاڑیوں میں سخت سودے بازی ہو گی۔ ہر کوئی زیادہ حصہ لینا چاہے گا۔
فورم