پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) تک رسائی میں گزشتہ 48 گھنٹوں سے مشکل کا سامنا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے حوالے سے ذمہ دار ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اب تک اس بارے میں کوئی بیان یا وضاحت جاری نہیں کی۔
پاکستان بھر میں ایکس کی سروس ہفتہ کو معطل ہوئی تھی جس کے بعد اتوار کو بھی تعطل کا سلسلہ جاری رہا۔ اتوار کی شام ایکس کی سروسز کچھ دیر کے لیے بحال ہوئیں لیکن بعد ازاں دوبارہ معطل ہو گئی۔
پی ٹی آئی نے ایکس کی معطلی پر مؤقف جاری کرنے سے گریز کیا ہے اور تاحال اس کی وجہ بھی سامنے نہیں آ سکی ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں نے ایکس کی بندش کو سیاسی صورتِ حال سے منسلک قرار دیا ہے اور اس بندش کو آزادیٴ اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیا ہے۔
پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس بند ہوئی ہوں۔ رواں ماہ آٹھ فروری کو انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں وزارتِ داخلہ کے احکامات پر موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی تھیں جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انٹرنیٹ کی بندش سے انتخابی عمل بھی مشکلات پیش آئیں۔ پریزائیڈنگ افسران نے انٹرنیٹ کے ذریعے فارم 45 ریٹرننگ افسران تک پہنچانا تھے۔ لیکن انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے رات گئے تک ایک بھی الیکشن کے نتیجے کا اعلان نہیں ہو سکا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بھی انٹرنیٹ کی بندش کو انتخابی نتائج میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
حالیہ عرصہ میں سماجی رابطے کے مختلف ویب سائٹس ایکس، یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک پر بھی مختصر وقت کے لیے پابندیاں رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف اس بارے میں الزام عائد کرتی ہے کہ ان کے ورچوئل یا آن لائن جلسوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر ایسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ تاہم پی ٹی اے نے ان الزامات سے انکار کیا تھا۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ’بائٹس فار آل‘ سے وابستہ ہارون بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ بندش 17 فروری کو تحریکِ انصاف کی طرف سے احتجاج شروع کرنے کے بعد نظر آ رہی ہے۔
ان کے بقول اس دوران کمشنر راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس بھی سامنے آئی جس کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے بہت زیادہ سوشل میڈیا پوسٹس کی جا رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف ایک پلیٹ فارم ایکس کو بند کیا گیا کیوں کہ ایکس سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان بھر میں فیصلہ ساز ادارے اور افراد ایکس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی بھی پریس کانفرنس کرنے والے کمشنر کی ویڈیوز اور دیگر مواد کو بہت زیادہ شئیر کر رہے تھے۔
ہارون بلوچ نے کہا کہ اس وقت صرف ایکس نہیں بلکہ بہت سے وی پی این بھی پاکستان میں بلاک ہیں اور کام نہیں کر رہے۔
ان کے بقول کچھ وی پی این ایسے ہیں جو اسٹیلتھ موڈ میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن زیادہ تر بلاک ہیں۔ ان کا مقصد بظاہر پی ٹی آئی کے آن لائن احتجاج کو روکنا ہے کیوں کہ سوشل میڈیا پر آنے کے بعد لوگوں کو سڑکوں پر آنے کے لیے راغب کیا جاتا ہے۔
ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ ان سوشل میڈیا کی سائٹس کے ذریعے بزنس کرنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کا بزنس 2023 میں کم ہوا اور اس کی بڑی وجہ وہ مختلف اوقات میں بندش ہے۔ پاکستان میں زیادہ بزنس یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک کے ذریعے ہوتا ہے۔
اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت 10 کروڑ کے قریب فیس بک اور ٹوئٹر کے 8 کروڑ سے زائد صارفین ہیں جب کہ ٹک ٹاک کے ڈیڑھ کروڑ کے قریب صارف ہیں۔ ٹوئٹر پر اگرچہ بہت زیادہ ریونیو جنریٹ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی بندش سے خبروں تک رسائی محدود ہو جاتی ہے۔
ہارون بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں ایکس کو ایچ ٹی ٹی پی ایس کے لیول پر بلاک کیا گیا ہے اور اس کے لیے بہت اعلیٰ ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔
ان کے مطابق ’’ہمیں نظر آ رہا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد سیاسی تنظیموں کی مہم کو محدود کرنا ہے ۔‘‘
انٹرنیٹ صارفین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کہتی ہیں کہ اس بارے میں حکومت کی طرف سے بعض اطلاعات آئی تھیں کہ ضروری مرمت کی وجہ سے کچھ سائٹس بند ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ حیرت انگیز ہے کہ صرف ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سائٹس بند ہونے کی تعداد یاد رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ ایسا مسلسل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی حالات نظر آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں حکومت کا مؤقف فوری طور پر سامنے آنا چاہیے۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ خاص موقع پر اور خاص اوقات پر انہیں بلاک کردیا جاتا ہے۔
ان کے بقول ان سائٹس کی بندش سے آزادیٴ اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔
نگہت داد کا مزید کہنا تھا کہ کسی پلیٹ فارم کو بند کرنا لوگوں کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کسی پر تنقید کرنے اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے بہت کم تعداد میں پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ اگر ان پر بھی پابندی لگے گی تو اداروں کا احتساب کیسے ہو سکے گا۔
پاکستان میں ایکس تک صارفین کی رسائی میں دشواری پر مؤقف جاننے کے لیے انٹرنیٹ کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی سے اس بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پیغامات دیے جانے کے باوجود ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان میں میڈیا اور انٹرنیٹ کی ریگولیشن پر نظر رکھنے والی تنظیم ’میڈیا میٹر فار ڈیموکریسی‘ سے وابستہ صدف بیگ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایکس کا شٹ ڈاؤن ایک الارمنگ ٹرینڈ ہے جو پوری الیکشن مہم، الیکشن کے دن اور اس کے بعد بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ان کے بقول اس انداز میں سوشل میڈیا کو بند کرنے سے انفارمیشن کا فلو رک نہیں سکتا۔ یہ ایک غیر ضروری مشق ہے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے کیوں کہ انفارمیشن روکنے کی صورت میں مس انفارمیشن کے لیے بہت آسانی ہوتی ہے کہ وہ کسی اور میڈیم کے ذریعے لوگوں تک پہنچے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستند معلومات تک رسائی کم ہونے سے ایسا خطرناک ماحول بن جاتا ہے جہاں فیصلہ ساز غیر مستند معلومات کی بنیاد پر فیصلے لے لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت اور انتخابی عمل میں معلومات تک رسائی اور میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ ووٹنگ اور حکومت کے حوالے سے لوگوں کے خیالات اسی سے سامنے آتے ہیں۔ اس طرح کی بندش سے اداروں پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا ہے۔ اس کے نتائج سیاسی استحکام اور ملک کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔