رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میں بجلی سولر انرجی سسٹم لگانے والوں کی وجہ سے مہنگی ہو رہی ہے؟


  • ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمت بڑھنے سے شہریوں کا شمسی توانائی پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
  • بجلی کی کھپت کم ہونے سے حکومت نجی بجلی گھروں کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں اضافی رقم دینے پر مجبور ہے۔
  • معاہدے کے تحت نجی بجلی گھروں کی بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت نجی بجلی مالکان کو بجلی بنانے کی صلاحیت رکھنے پر ہی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔
  • حکومت کے پاس اپنا نقصان کم کرنے یا نجی بجلی گھروں کے مالکان کو معاہدوں پر نظر ثانی پر قائل کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نہیں ہے، فرحان محمود
  • اس وقت بجلی کے سیکٹر میں پاکستان کو دو ہزار 200 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، ماہرِ توانائی

بجلی کی آئے روز قیمت میں اضافے سے کراچی کے رہائشی امتیاز علی نے اپنے گھر کو مکمل طور پر سولر انرجی پر منتقل کر دیا ہے۔ لیکن شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کرنے والوں پر ٹیکس کی خبر نے انہیں پریشان کر دیا ہے۔

امتیاز علی کو اپنا گھر سولر انرجی پر منتقل کیے دو ماہ ہی گزرے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پہلے خود سولر پینلز لگانے کی ترغیب دی، لوگوں کو متبادل اور ماحول دوست توانائی کی جانب راغب کیا اور اب جب لاکھوں گھر سولر سسٹم سے مستفید ہونے لگے ہیں تو حکومت اس پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کر رہی ہے۔

اگرچہ وفاقی وزارتِ توانائی نے اپنی پریس ریلیز میں ایسے کسی ٹیکس کے نفاذ کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سولر پاور پر کسی قسم کے فکسڈ ٹیکس کے نفاذ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ حکومت 12 کلو واٹ یا اس سے زیادہ کا سولر سسٹم لگانے والوں پر دو ہزار روپے فی کلو واٹ ٹیکس عائد کرنے جا رہی ہے۔

وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری نے اپنے ایک بیان میں اس قسم کے ٹیکس کے نفاذ کی تردید کی ہے اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے 'نیٹ میٹرنگ' پر نظر ثانی کی جائے۔

نیٹ میٹرنگ ایک بلنگ مکینزم ہے جس کے ذریعے صارف سولر یا ونڈ پاور کے ذریعے بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت بھی کر سکتے ہیں۔

اویس لغاری کے مطابق جو لوگ نیٹ میٹرنگ کے لیے سرمایہ کاری کر چکے ہیں انہیں صحیح ریٹرن ملنے اور نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے نئی پالیسی پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل جاری ہے اور یہ ایک سے دو ماہ میں یہ پالیسی سامنے آجائے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں نہ صرف گھریلو سطح پر بلکہ دور دراز علاقوں میں جہاں بجلی دستیاب نہیں وہاں کسان ٹیوب ویلز چلانے اور اپنے گھروں کو روشن کرنے کے لیے شمسی توانائی کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس طرح ان کا بجلی کے لیے قومی گرڈ پر انحصار کم ہو رہا ہے۔

شمسی توانائی کا استعمال کیوں بڑھ رہا ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے اور قابلِ بھروسہ سپلائی نہ ہونے نے شہریوں کا شمسی توانائی پر انحصار بڑھایا دیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں بجلی کی قیمت میں تاریخی اضافہ ہوا اور بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت 48 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔

تاجروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں چین سے سولر پینلز کی بڑے پیمانے پر درآمد کے بعد ملک میں سولر پینلز کی فی کلو واٹ قیمتوں میں 60 فی صد تک کمی دیکھی گئی ہے۔

ماضی میں حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے اور گزشتہ بجٹ میں بھی سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح کم کی گئی تھی۔

حال ہی میں پنجاب حکومت نے صوبے کے 50 ہزار گھرانوں کو ایک کلو واٹ کے سولر انرجی سسٹم فراہم کرنے کی منظوری دی ہے جس کے لیے پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

صوبائی حکومت کے مطابق سو یونٹس تک بجلی خرچ کرنے والے پروٹیکٹڈ صارفین کو اسکیم کے تحت دو سولر پلیٹس، بیٹری، انورٹر اور تاریں فراہم کی جائیں گی۔

شمسی توانائی سے حکومت کو کیا نقصان ہو رہا ہے؟

سولر انرجی سسٹم لگانے سے حکومت کو کیا نقصان ہو رہا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میں پن بجلی سے تیار کی گئی بجلی کے علاوہ 90 کے قریب بجلی گھر بھی ہیں جو کوئلے، گیس، آر ایل این جی اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حکومت کے اپنے اور زیادہ تر نجی ملکیت میں ہیں۔

حکومتی ادارہ سینٹرل پرچیزنگ پاور اتھارٹی بجلی کارخانوں سے بجلی خریدتا ہے اور پھر اسے عوام کو بیچ دیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی گھر قائم کرنا انتہائی منافع بخش کاروبار ہے جو مسلسل غیر متوقع منافع کما رہے ہیں۔ حکومت کے ان نجی بجلی گھروں سے معاہدے کے تحت بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت انہیں بجلی بنانے کی صلاحیت رکھنے پر ہی ادائیگی کرنے کی پابند ہے جسے 'کیپیسٹی پیمنٹ' کہا جاتا ہے۔

یعنی آسان الفاظ میں بجلی گھروں کی بجلی فروخت ہو یا نہ ہو، کوئی استعمال کرے یا نہ کرے، بجلی گھر کو اس کی بجلی بنانے کی استعداد پر ہی ادائیگی یقینی ہوتی ہے۔ اور یہ ادائیگی امریکی ڈالرز میں ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس بجلی بنانے کی صلاحیت 40 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ سولر پینلز کی مدد سے پاکستان میں لگ بھگ تین ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی بھی پیدا ہوتی ہے۔

نیٹ میٹرنگ کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟

پاکستان میں نیٹ میٹرنگ کا نظام سولر پینلز کے مالکان کے لیے انتہائی فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ جس کے ذریعے شمسی توانائی سے حاصل شدہ اضافی بجلی گرڈ کو بیچ سکتے ہیں اور ماہانہ بل میں بجلی کے یونٹ کما سکتے ہیں۔

نیٹ میٹرنگ ملک میں نسبتا ایک نیا لیکن قانونی عمل ہے اور نیپرا نے چند سال قبل ہی اس بارے میں باقاعدہ ضوابط جاری کیے تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لگ بھگ دو لاکھ صارفین نیٹ میٹرنگ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور گزشتہ برس نیٹ میٹرنگ کے عمل سے پانچ کروڑ 50 لاکھ یونٹس پیدا کیے گئے تھے۔

اس وقت نیٹ میٹرنگ کے ذریعے بجلی فروخت کرنے کے ریٹس تقریباً 22 روپے فی یونٹ ہیں۔

ماہر توانائی اسد محمود کے مطابق حکومت کو فکر اس بات کی ہے کہ وہ امیر طبقات جو گرڈ سے حاصل کردہ بجلی کے 700 سے 800 یونٹس تک استعمال کرتے تھے وہ اب چند یونٹس بجلی استعمال کر رہے ہیں اور یوں طلب میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسد محمود نے کہا کہ بجلی کی کھپت کم ہونے کے بعد کیپیسٹی پیمنٹس، جو بجلی کے کارخانوں نے وصول کرنے ہیں، وہ اسی رفتار سے موجود ہے۔ یوں اس کا نقصان کسی اور کو نہیں بلکہ حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ان کے بقول، کپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں ادائیگی حکومت کو کرنا ہوتی ہے اور اس وقت وہ یہ نقصان برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ایسے میں اس کے پاس یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ صارفین سے بجلی کی اضافی قیت وصول کرے۔

'حکومت کی حکمتِ عملی نظر نہیں آرہی'

ایک اور ماہر امورِ توانائی فرحان محمود کے مطابق اس وقت ملک کے توانائی سیکٹر میں موجود خرابیوں اور گردشی قرضوں کی بڑی وجہ حکومت کی پالیسیز ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ٹرانسمیشن لاسز اور بجلی چوری سے ہونے والے نقصانات صارف برداشت کر رہے ہیں۔ایسے میں اگر وہ سولر پینلز کے ذریعے متبادل توانائی حاصل کرتے ہیں تو حکومت اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے انہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔

فرحان محمود کے مطابق بجلی کے سیکٹر میں حکومت اپنا نقصان کم کرنے یا نجی بجلی گھروں کے طاقتور مالکان کو معاہدوں پر نظر ثانی پر قائل کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی نظر نہیں آرہی۔

ماہر توانائی اسد محمود کے مطابق اس وقت بجلی کے سیکٹر میں پاکستان کو دو ہزار 200 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں چند نجی بجلی گھروں کے سوا سبھی کو ڈالرکے ریٹ بڑھنے سے مسلسل فائدہ ہورہا ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ نیٹ میٹرنگ سے بجلی سسٹم میں شامل ہونے سے وہ لوگ جنہوں نے اب تک سولر پینلز نصب نہیں کیے وہ کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں زیادہ ادائیگی کرنے پر مجبور ہوں گے۔

حکومت کے تخمینے کے مطابق نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے بجلی کی قیمت مزید تین روپے فی یونٹ سے بھی زیادہ مہنگی ہوجائے گی۔ تاہم ابھی حکومت اس حوالے سے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔

ایسے میں امتیاز علی جیسے کئی لوگ جو سستی بجلے کے حصول کے لیے پر تول رہے ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں سولر پینلز کی خریداری پر ان کی سرمایہ کاری ان کے لیے مہنگا سودہ ثابت نہ ہو۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG