|
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جعرات کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
عمران خان گزشتہ برس اگست میں گرفتاری کے بعد پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے کسی کیس میں پیش ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سماعت کے دوران ویڈیو لنک میں نظر آ رہا تھا کہ عمران خان اڈیالہ جیل کے ایک کمرے میں نیلے رنگ کی شرٹ پہنے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ایک تصویر بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس پر انٹرا کورٹ اپیلوں کی گزشتہ سماعت براہِ راست نشر کی گئی تھی۔ تاہم جمعرات کو ہونے والی سماعت یوٹیوب پر براہِ راست نشر نہیں کی جا رہی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس اظہر رضوی شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی پیشی کے سبب کمرۂ عدالت وکلا اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے بھرا ہوا تھا۔ عمران خان کی بہنیں بھی عدالت میں موجود تھیں۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ کیا ویڈیو لنک قائم ہو گیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ویڈیو لنک قائم ہو چکا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آج کی سماعت لائیو نشر نہیں کی جا رہی۔ اس سے قبل ہونے والی سماعتیں لائیو دکھائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ کیس لائیو نہ دکھایا جائے اس لیے یہ لائیو نہیں دکھایا جا رہا۔ البتہ عمران خان ویڈیو لنک سے پیش ہو چکے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ عمران خان عدالت کی سماعت سن رہے ہیں۔ البتہ ان کا مائیک بند ہے اس لیے ان کی آواز اب سنائی نہیں دی گئی۔
ان کے بقول یہ کیس آج مکمل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی مزید کچھ سماعتیں ہو سکتی ہیں جس کے بعد فیصلہ آنے کا امکان ہے۔
اس سے قبل منگل کو کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا ایک خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس کیس میں پیش ہونا چاہتے ہیں جس پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی ہدایت کی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گزشتہ برس ستمبر میں نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا تھا۔ یہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل جاری کیا تھا۔
عدالت نے نیب ترامیم کی بیشتر شقیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ترامیم سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) میں چلنے والے مقدمات بحال کر دیے تھے۔
حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے اکتوبر 2023 میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرِ سماعت مقدمات کے حتمی فیصلوں سے روک دیا تھا۔
عمران خان کی تصویر لیک ہونے پر سیکیورٹی سخت
سماعت کے دوران عمران خان کی ویڈیو لنک سے شرکت کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کمرۂ عدالت کے باہر سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ پولیس کے مزید اہلکار کمرۂ عدالت کے باہر تعینات کر دییے گئے۔
بعد ازاں کمرۂ عدالت میں داخل ہونے والے ہر شخص کی جامہ تلاشی لی گئی جب کہ کسی بھی غیر متعلقہ فرد کو کمرۂ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرۂ عدالت میں سرگوشیوں پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنہوں نے باتیں کرنی ہیں وہ کمرۂ عدالت سے باہر چلے جائیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کی ویڈیو لنک پر موجود بڑی اسکرین سے تصویر ہٹا دی گئی تھی۔ بعد ازاں بینچ کے ججوں نے عملے کو بلا کر کچھ ہدایات جاری کیں۔ تو سابق وزیرِ اعظم کی ویڈیو دوبارہ کمرۂ عدالت کی بڑی اسکرین پر دکھائی جانے لگی۔
سماعت کے دوران ایک وکیل نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ عدالتی کارروائی براہِ راست نشر نہیں کی جا رہی۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے وکیل کو کہا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ اس وقت کیس پر دلائل چل رہے ہیں۔
وکیل نے ایک بار پھر کہا کہ وی صرف عدالت کے نوٹس میں یہ معاملہ لانا چاہتے تھے۔ البتہ چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔
حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی۔ کیس نا قابلِ سماعت ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا تھا۔ بے نظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس مکمل کرکے نیب ترامیم کیس سنا گیا۔ عدالت میں مؤقف تھا کہ کسی قانون کو معطل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں بل کی سطح پر اسے معطل کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں عدالت نے آرڈر آف دی کورٹ جاری کیا۔
'پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے'
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل کرنا درست تھا یا غلط۔ مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل ہوا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک قانون کو معطل کرنے پھر اس کیس کو سنا ہی نہ جائے۔ تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔
بینچ کے رکن جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح پھر پارلیمان کو ہی کیوں نہ معطل کر دیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے، ایک ہی بات ہے۔ ہم کب تک خود جو پاگل بناتے رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے۔ قانون معطل کر کے بینچ کا اس کے خلاف دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے۔ حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں، بلکہ قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی اپیل دائر کرسکتا ہے۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 2022 کے فالو اپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئی تھیں۔ عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی تھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس اور عمران خان کی مسکراہٹ
مخدوم عالی خان نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر عمران خان سے جواب لیں گے۔ انہوں نے سابق وزیرِ اعظم کو ہدایت کی کہ وہ یہ نکات نوٹ کر لیں۔
جب چیف جسٹس قاضی فائر یہ ریمارکس دے رہتے تھے تو اس کے ساتھ وہ زیرِ لب مسکرا دیے۔ عمران خان بھی چیف جسٹس کی مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان وزیرِ اعظم تھے اور قانون بدل سکتے تھے۔ مگر آرڈیننس لائے۔ نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازع تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا۔ یا ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا۔
عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مخدوم صاحب کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے حکومتی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں۔ یہاں تو اسے ختم کرنے کے لیے کوئی اور آرڈیننس لایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔ آرڈیننس کے ذریعے ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیا جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں۔
بعد ازاں سپریم کے پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ڈھائی گھنٹوں کی سماعت میں ایک لفظ بولنے کی بھی اجازت نہیں ملی۔
نیب ترامیم کیا تھیں؟
جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں۔ لیکن اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔
تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب ترامیم کے تحت حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر نیب عدالت میں پیش کرنے کا پابند تھا۔ نیب ترامیم کے تحت کئی کیسز دیگر عدالتوں کو منتقل بھی کر دیے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ سارا عمل رک گیا ہے۔
نیب ترامیم میں کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا ہوتی تھی۔
منظور کیے گئے بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لیے مدت میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
نیب ترامیم کے مطابق پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10 دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا۔ لیکن اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔