رسائی کے لنکس

فضائی حادثے میں ایرانی صدر کی موت؛ مشرقِ وسطیٰ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟


  • اپریل میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔
  • رواں برس دونوں روایتی حریفوں نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست عسکری قوت کا استعمال کیا ہے۔
  • ایک اسرائیلی عہدے دار نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے سے کوئی تعلق نہیں۔

ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر، وزیرِ خارجہ اور دیگر حکام کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ حالات کے پس منظر میں خطے پر اس واقعے کے ممکنہ اثرات بین الاقوامی میڈیا میں بحث کو موضوع ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے ہیلی کاپٹر حادثے میں ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں امکان ظاہر کیا کہ اس واقعے کی گونج مشرقِ وسطیٰ میں سنی جائے گی۔

پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں جاری کشیدگی گزشتہ ماہ عروج پر پہنچ گئی تھی جب ابراہیم رئیسی اور ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے شام میں ایرانی قونصلیٹ پر ایک حملے میں دو ایرانی جنرلوں اور دیگر اہل کاروں کی موت کے جواب میں اسرائیل پر سینکڑوں ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔

اسرائیل نے امریکہ، بحرین، اردن اور دیگر ممالک کی مدد سے ایران کی جانب سے لانچ کیے گئے زیادہ تر ڈرونز اور میزائل مار گرائے تھے۔ اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے ایران کے شہر اصفہان میں فضائی دفاع کے رڈرا سسٹم کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کارروائی میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ کئی برسوں کے دوران خفیہ آپریشنز اور سائبر حملوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ تاہم رواں برس اپریل میں پہلی مرتبہ دونوں حریف ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست اپنی عسکری قوت کا استعمال کیا تھا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے خطے میں دیگر اتحادی بھی تنازعات میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور مسلسل اس جنگ کو وسعت دینے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔

اس وقت لبنان، شام، عراق، یمن اور فلسطینی علاقوں میں ایران کے حمایت یافتہ کئی گروپس موجود ہیں جن کو تہران امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی میں ڈھال کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں جاری تناؤ کے ماحول میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے جیسا کوئی غیر معمولی واقعہ آئندہ غیر متوقع صورتِ حال کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اسرائیل کے ساتھ شدید تلخی

اسرائیل متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے ایران کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔

اس کے علاوہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے مخالف گروپس کو اسلحے کی فراہمی بھی کشیدہ تعلقات کے بنیادی اسباب میں شامل ہے۔

ایران خود کو اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسیطینیوں کی مزاحمت کے سب سے بڑے سر پرست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اعلیٰ ترین ایرانی حکام کئی دہائیوں سے اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے جیسی دھمکیاں دیتے آئے ہیں۔

ابراہیم رئیسی ایک قدامت پسند رہنما تھے اور انہیں ایران کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کا ممکنہ جانشین سمجھا جاتا تھا۔

انہوں نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے ہمیں قابض قوت کو نکالنا ہوگا۔ پھر اس سے نقصانات کی بھرپائی کرانا ہوگئی اور آخر میں اسے انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

سمجھا جاتا ہے کہ اسرائیل نے گزرے برسوں میں متعدد بار ایران کے سینئر عسکری حکام اور جوہری سائنس دانوں کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا ہے۔

اتوار کو ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے میں اسرائیل کے کسی کردار سے متعلق کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیلی حکام نے باضابطہ طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔

تاہم خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایک اسرائیلی عہدے دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ اسرائیل کا ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسرائیلی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہم نہیں ہیں۔‘‘

خلیجِ فارس سے ملحق عرب ممالک بھی ایران سے متعلق تحفظات رکھتے ہیں اور اس پر اعتماد نہیں کرتے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے میں ایران سے متعلق ان کے خدشات کو کلیدی محرک قرار دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر غور کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔

لبنان سے یمن تک پھیلی پراکسی وار

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اتوار کو رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آنے سے متعلق خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔

گزشتہ برس اسرائیل پر حملہ کرنے والی تنظیم حماس کو گزشتہ کئی برسوں سے ایران کی مالی امداد اور دیگر شعبوں میں معاونت حاصل رہی ہے۔

ایک اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ اسلامی جہاد کے بھی ایران سے روابط ہیں۔ یہ گروپ اکتوبر کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی غزہ جنگ میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔

تاہم سات اکتوبر کے حملوں میں حماس کو ایران کی مدد حاصل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایران کے رہنما فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں جب کہ خطے میں اس کے اتحادی نے بیانات سے بڑھ کر عملی طور پر بھی کردار ادا کیا ہے۔

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے خطے میں ایران کی سب سے زیادہ طاقت ور پراکسی حزب اللہ نے محدود پیمانے پر اسرائیل کے ساتھ جھڑپیں کی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر دو طرفہ گولہ باری جاری رہی ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ سے اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر ہزاروں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ تاہم اس کشیدگی نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار نہیں کی ہے۔

عراق اور شام میں ایران نواز عسکریت پسند امریکی اڈوں پر حملے کرچکے ہیں۔ تاہم جنوری میں ایک ڈرون حملے سے تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے بعد یہ سلسلہ رک گیا ہے۔

خطے میں یمن کے حوثی بھی ایران کے اہم اتحادی ہیں۔ حوثی باغی بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی جہاز رانی کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ ان حملوں میں جن جہازوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کا براہِ راست اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان حملوں کے جواب میں امریکہ کی سربراہی میں آپریشنز کیے گئے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ سے باہر

ایران کا اثر و رسوخ مشرقِ وسطیٰ سے باہر اور اسرائیل کے ساتھ مخاصمت سے ماورا ہے۔

اسرائیل اور مغربی ممالک طویل عرصے سے یہ شبہہ ظاہر کرتے آئے ہیں کہ ایران پر اُمن مقاصد کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ ایران کی کوششوں کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے خلاف شدید خطرہ تصور کرتے ہیں۔

حزب اللہ کے پاس کون کون سے ہتھیار ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:30 0:00

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دست بردار ہوگئے تھے جو 2018 میں ان کے پیش رو صدر اوباما کے دور میں کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس کے بعد ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔

عام طور پر اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی واحد جوہری قوت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اسرائیل نے کبھی اپنی جوہری صلاحیت کا اعلان نہیں کیا۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ایران اس کا قریبی اتحادی کے طور پر سامنے آیا ہے۔

ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ روس کو یوکرین کے شہروں پر حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونز فراہم کرتا ہے۔

صدر ابراہیم رئیسی نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو ایک انٹرویو میں ان الزامات کی تردید کی تھی۔

ایرانی حکام اس بارے میں متضاد بیانات دیتے رہے ہیں جب کہ امریکہ اور یورپی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ میں ایرانی ڈورنز بڑی تعداد میں استعمال ہو رہے ہیں۔

اس خبر کا زیادہ تر مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG