|
نئی دہلی —وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو بھارت کے عام انتخابات میں، ان کی اپنی پارٹی کی جانب سے مایوس کن کارکردگی کے درمیان، اپنے اتحاد کی جیت کا دعویٰ کیا ہے۔ انہیں اپوزیشن کی جانب سے توقع سے زیادہ مضبوط چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس پارٹی نے نتائج کو وزیر اعظم مودی کی اخلاقی شکست سے تعبیر کیا ہے۔
مودی نے اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں جمع ایک مجمع سے کو بتایاکہ ان کا ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ مسلسل تیسری بار حکومت بنائے گا، انہوں نے کہا کہ بھارتی ووٹروں نے ان کی پارٹی اور حکمران اتحاد، دونوں پر "بہت زیادہ اعتماد" ظاہر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی جیت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی جیت ہے۔
نتائج وزیر اعظم مودی کی اخلاقی شکست ہیں: کانگریس پارٹی
کانگریس کےصدر ملک ارجن کھڑگے اور سینئر رہنما راہل گاندھی نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بدھ کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ میٹنگ کی جائے گی۔ جس میں تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی یو) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرنے کے سلسلے میں بھی مشاورت ہوگی۔
یہ دونوں پارٹیاں کنگ میکر کی حیثیت سے ابھری ہیں۔ ٹی ڈی پی کو 15 اور جے ڈی یو کو 12 سیٹیں مل رہی ہیں۔ تاہم ان دونوں پارٹیوں نے اپنا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔
جب کہ انڈیا اتحاد اور این ڈی اے اتحاد میں 60سیٹوں کا فرق ہے۔ این ڈی اے کو 292 اور انڈیا کو 232 سیٹیں مل رہی ہیں۔
راہل اور کھڑگے کا یہ بیان بی جے پی کے اکثریت سے دور رہنے کے تناظر میں کافی اہم ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی کو 240 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اسے حکومت سازی کے لیے مذکورہ دونوں اتحادی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔
راہل گاندھی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انڈیا اتحاد اپوزیشن میں بیٹھے گا تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنے حلیفوں کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ مشاورت میں اس پر گفتگو ہو گی۔ تاہم راہل اور کھڑگے دونوں نے کہا کہ انتخابی نتائج وزیر اعظم نریندر مودی کی اخلاقی شکست ہے۔
لوک سبھا انتخابات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں
ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوگ سبھا کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں اس بار بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت سازی کے لیے ضروری اکثریت سے دور ہے۔ تاہم حکمران اتحاد ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کو اکثریت ملنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
گزشتہ دو انتخابات میں اس کی دو سب سے بڑی جماعتوں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں تھی۔ لیکن اس بار وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان کو ملنے والی نشستوں میں کافی اضافے کی امید ہے۔
لیکن حکومت کس اتحاد کی بنے گی کس کی نہیں؟ فی الحال حتمی طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابھی رجحانات کی بنیاد پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق این ڈی اے کو 295 اور انڈیا کو 235 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
19 اپریل سے یکم جون تک بھارت کی مختلف ریاستوں میں لوک سبھا کی 543 نشتوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔
انتخابات میں لگ بھگ ایک ارب لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 66 فی صد سے زیادہ ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔
یکم جون کو ووٹنگ کا ساتواں مرحلہ مکمل ہونے کے بعد مقامی میڈیا میں جو ایگزٹ پولز سامنے آئے تھے، ان میں این ڈی اے کو دو تہائی اکثریت ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ متعدد ایگزٹ پولز میں کہا گیا تھا بی جے پی تنہا 303 سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔
ایگزٹ پولز میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپنگ انکلیوسیو الائنس (انڈیا) کو 60 سے زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
تاہم منگل کو آںے والے ابتدائی جائزوں نے ایگزٹ پولز کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔
ایگزٹ پولز بعض نجی کمپنیوں کی جانب سے ووٹرز کی آرا پر مشتمل جاری کردہ ممکنہ انتخابی نتائج ہوتے ہیں۔ البتہ ماضی میں بھارت میں ایگزٹ پولز کے نتیجے غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔
ووٹوں کی گنتی سے ملنے والے رجحانات کے مطابق بی جے پی کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش (یو پی) میں کافی نقصان ہو رہا ہے۔ وہاں سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں۔
سال 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو یو پی سے 62 نشستیں ملی تھیں۔ لیکن اس بار اسے 33 نشستوں کے ملنے کا امکان ہے جب کہ انڈیا اتحاد کو 43 نشستیں مل سکتی ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں سال جنوری میں ایودھیا میں زیر تعمیر نامکمل رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔
بعض مبصرین کے مطابق بی جے پی کو امید تھی کہ اس قدم سے ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
ایودھیا اور رام مندر جس حلقے میں آتا ہے وہ فیض آباد کا حلقہ ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کے للو سنگھ وہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس بار وہ سماجوادی پارٹی کے اودھیش پرساد سے ہار گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات پر رام مندر کے افتتاح کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بی جے پی نے رام مندر ایشو سے جو توقعات لگا رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔
اترپردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد تھا اور کانگریس رہنما راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے متعدد مشترکہ ریلیاں کی تھیں۔
ان ریلیوں میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔ ایک مرتبہ پریاگ راج (الہ آباد) کے قریب پھولپور میں ان کی مشترکہ ریلی میں بڑا اجتماع ہونے کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور دونوں کو خطاب کیے بغیر واپس ہونا پڑا تھا۔
دونوں جماعتوں نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اتحاد کیا تھا۔ لیکن اس وقت ان کی کارکردگی بہت خراب رہی تھی اور بہت سے تجزیہ کار ’دونوں لڑکے‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے رہے تھے۔
لیکن اس بار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس نے جھک کر اتحاد کیا۔ راہل گاندھی نے اپنی یاتراؤں سے اپنا سیاسی قد بڑھایا اور اکھلیش نے امیدواروں کے انتخاب میں کامیاب حکمت عملی اختیار کی جس کا نتیجہ ان کی کامیابی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔
ریاست کی ایک اور اہم جماعت ’بہوجن سماج پارٹی‘ (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے 2019 کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور ان کی پارٹی بی ایس پی کو 10 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
2014 میں اس جماعت کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اس مرتبہ بھی بی ایس پی کو ایک بھی سیٹ ملتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اترپردیش میں فیض آباد کے علاوہ امیٹھی، رائے بریلی اور وارانسی کی سیٹوں پر لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کی اسمرتی ایرانی نے کانگریس کے راہل گاندھی کو تقریباً 50 ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا۔
اس بار وہاں سے نہرو گاندھی خاندان کے وفادار کشوری لال شرما کو کانگریس نے امیدوار بنایا تھا۔ ان کے اور اسمرتی ایرانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے اور اسمرتی ایرانی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے ان سے پیچھے چل رہی ہیں۔
رائے بریلی سیٹ سے راہل گاندھی انتخاب لڑ رہے تھے جو کہ اس سے قبل سونیا گاندھی کی سیٹ ہوا کرتی تھی۔
راہل گاندھی وہاں سے چار لاکھ ووٹوں کے فرق سے بی جے پی امیدوار دنیش سنگھ سے جیت گئے ہیں۔ وہ کیرالہ کے وایناڈ سے بھی بڑے فرق سے آگے چل رہے ہیں۔
وارانسی میں ابتدا میں وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس کے اجے رائے سے پیچھے تھے۔ لیکن بعد کی گنتی میں انہوں نے سبقت حاصل کی اور اب وہ ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ ان کی جیت یقینی ہے تاہم اس بار جیت کا فرق کم رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ الیکشن مودی نے نے چا رلاکھ ووٹوں سے جیتا تھا۔
لیکن بی جے ہی کو تنہا 244 نشستیں مل سکتی ہیں جب کہ کانگریس کی یہ تعداد تقریباً 100 تک ہے۔
اگر این ڈی اے اتحاد حکومت بناتا ہے تو وہ آندھرا پردیش کے تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے صدر چندر بابو نائڈو اور بہار میں جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی ایس) کے صدر نتیش کمار کی حمایت کے بغیر نہیں بن سکے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دونوں سیاست دان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ سارا دارو مدار اس پر ہے۔ دونوں پہلے مرکز میں این ڈی اے اور یو پی اے محاذوں کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ نتیش کمار کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انتخابی مہم کے ختم ہونے کے بعد راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے کہا تھا کہ نتیش کمار پانچ جون کو اپنا فیصلہ کریں گے۔
میڈیا میں ایسی خبریں ہیں کہ ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) کے صدر شرد پوار چندر بابو نائڈو اور نتیش کمار کے رابطے میں ہیں۔
یاد رہے کہ انڈیا اتحاد کی کوشش کا آغاز شرد پوار اور نتش کمار نے ہی کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس کی جانب سے بھی ان دونوں کو پیشکش کی جا چکی ہے۔
اگر دیگر اہم ریاستوں کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو مہاراشٹر میں جہاں بی جے پی نے شیو سینا کو توڑ کر اس کے ایک دھڑے کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ این ڈی اے کو 18 اور انڈیا کو 29 سیٹیں مل رہی ہیں۔
جنوبی ریاست تمل ناڈو میں بی جے پی کو پہلی بار ایک سیٹ ملتی نظر آرہی ہے۔ وہاں حکمران ڈی ایم کے 38 سیٹوں پر آگے چل رہی ہے۔
مغربی بنگال میں گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے 18 نشستیں جیتی تھیں۔ اس بار وزیر اعظم مودی کا دعویٰ تھا کہ بی جے پی سب سے زیادہ بنگال میں جیتے گی۔
لیکن وہاں بی جے پی کی نشستیں کم ہو کر 12 تک آگئی ہیں۔ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کو 29 نشستیں ملتی نظر آ رہی ہیں۔
دہلی سے متصل پنجاب میں کانگریس کو سات، عام آدمی پارٹی کو تین نشستوں پر سبقت ہے جب کہ بی جے پی کو ایک بھی نشست پر برتری نہیں ہے۔ البتہ دہلی کی ساتوں نشستوں پر بی جی پی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
کرناٹک میں بی جے پی کو خلاف توقع سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ وہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ لیکن بی جے پی کو 19 اور کانگریس کو آٹھ سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
راجستھان میں بھی بی جے پی کو خاصا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ وہاں کانگریس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ راجستھان کے بناس واڑہ ہی میں وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے 'درانداز' اور 'زیادہ بچے پیدا کرنے والے' الفاظ استعمال کیے تھے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم