|
ایک ایسی فضا میں جب غزہ میں گزشتہ سال اکتوبر سے جنگ جاری ہے اور 37 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، لاکھوں مسلمان اپنے ایک اہم مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ پہنچ چکے ہیں۔
حج کا شمار دنیا کے سب سے بڑے سالانہ اجتماعات میں سے ایک میں کیا جاتا ہے۔ غزہ کی صورت حال کے پیش نظر، سعودی حکام کی یہ کوشش ہے کہ یہ اجتماع دینی مناسک کی ادائیگی پر ہی مرکوز رہے اور کوئی اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیر توفیق الربیعہ حال ہی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ حج کے موقع پر کوئی سیاسی سرگرمی برداشت نہیں کی جائے گی۔
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیر کی رات تک 15 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی زائرین، فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب پہنچ چکے تھے، جن میں سے زیادہ تر پروازوں کے ذریعے آئے ہیں۔
گزشتہ سال 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے حج کے مناسک ادا کیے تھے جن میں سے تقریباً 90 فی صد کا تعلق بیرونی ممالک، خاص طور پر ایشیا اور عرب دنیا سے تھا۔
یونیورسٹی آف برمنگم میں سعودی امور کے ایک ماہر عمر کریم کہتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کی حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں نے مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر برہمی کو جنم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ سال سعودی رہنماؤں کے لیے ایک امتحان کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ گروپوں کی صورت میں یا انفرادی حیثیت سے احتجاج کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔
غزہ میں اب تک کی مہلک ترین جنگ پچھلے سال 7 اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل کے جنوبی علاقے میں ایک اچانک اور بڑے حملے کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق 1200 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 250 لوگوں کو عسکریت پسند یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور زمینی کاروائیوں میں اب تک 37 ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
سعودی عرب نے کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کے عملی طور پر حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، 7 اکتوبر کے غزہ تنازع سے قبل امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی اور دفاع سے منسلک ایک بڑی ڈیل کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر غور کر رہے تھے۔
سعودی حکام کا یہ کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مگر اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے نظریے کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری خبررساں ادارے’ سعودی پریس ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حج میں سعودی فرما روا، غزہ کی پٹی میں ہلاک اور زخمی ہونے والے خاندانوں کے ایک ہزار افراد کی میزبانی کریں گے، جس سے اس سال سرکاری میزبانی میں فریضہ حج ادا کرنے والوں کی تعداد 2000 ہو جائے گی۔
سعودی فرما روا سرکاری طور پر مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے متولی بھی ہیں۔
اس بار حج شدید گرمی کے موسم میں ہو رہا ہے اور حج کے موقع پر درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ (111 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
گزشتہ سال جج کے دوران 2000 سے زیادہ حجاج گرمی کی وجہ ہیٹ سٹروک اور دوسرے عوارض کا نشانہ بنے تھے۔
حج کے لیے اکھٹے ہونے والے بڑے اجتماعات کی وجہ سے کئی بار افسوس ناک واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ سن 2015 میں شیطان کو کنکر مارنے کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے 2300 سے زیادہ حجاج پاؤں تلے کچلے جانے سے مارے گئے تھے۔
حج اور عمرہ تیل سے مالا مال ملک سعودی عرب کے لیے زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک اور اہم ذریعہ بھی ہے، جس سے ہر سال اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
گزشتہ سال ایک کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ مسلمان عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2030 میں حج اور عمرے کے لیے تین کروڑ افراد کا ہدف طے کیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم