|
جون 1948 میں سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن کے ایک جارحانہ اقدام کے نتیجے میں دنیا کا سب سے بڑا دفاعی اتحاد نیٹو وجود میں آیا جس کے قیام کو 75 برس مکمل ہو چکے ہیں۔
ان گزرے برسوں میں اگرچہ سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت تو ختم ہو گئی لیکن آج بھی ماسکو نیٹو کا سب سے بڑا حریف ہے اور 'ایسوسی ایٹڈ پریس' پر شائع ہونے والے ایک تبصرے کے مطابق روس سے مقابلہ کرنا اس اتحاد کے ڈی این اے میں شامل ہے۔
سن 2022 میں یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے روس نے جنگ کا آغاز کیا تھا۔ جب کہ 1948 میں سوویت یونین کے سربراہ اسٹالن کو خطرہ تھا کہ مغربی ممالک ان کے لیے مغربی جرمنی کو ایک مضبوط حریف بنا کر کھڑا کر سکتے ہیں۔
اتحاد کی ڈائمنڈ جوبلی مکمل ہونے ہر واشنگٹن میں نو سے 11 جولائی تک جاری رہنے والے نیٹو کے اجلاس میں حسبِ توقع یوکرین جنگ ایجنڈے میں سرِ فہرست ہے۔
تاہم ماسکو اور نیٹو اتحاد کے درمیان تعلق کی اس نوعیت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹنے ہوں گے۔
پرانے اتحادی نئے حریف
نازی جرمنی کی قیادت میں محوری اتحاد کو شکست دینے کے لیے بننے والے اتحاد میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ساتھ سوویت یونین بھی شامل تھا۔
محوری قوتوں میں جرمنی کے علاوہ اٹلی اور جاپان جیسی بڑی قوتیں بھی شامل تھی اور انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستانہ نظریات ان کے درمیان مشترک قدر کا درجہ رکھتے تھے۔
سوویت یونین اگرچہ اس کیمپ کی قوتوں سے نظریات اختلاف رکھتا تھا لیکن مشترکہ دشمن جرمنی کے مقابلے کے لیے اتحادی کیمپ میں مختلف نظریات اور مفادات رکھنے والے ممالک یکجا ہو گئے تھے۔
دوسری عالمی جنگ 1945 میں محوری جرمنی اور جاپان جیسی بڑی محوری قوتوں کی شکست کے بعد ختم ہو گئی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جرمنی کو مغربی و مشرقی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مغربی حصہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے زیرِ انتظام تھا اور مشرقی حصے پر سوویت یونین کا کنٹرول تھا۔
لیکن جنگ کے بعد سوویت یونین نے جب ایک مرتبہ پھر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا تو جرمنی اس کے لیے میدانِ جنگ بن گیا۔
مارشل پلان سے نیٹو تک
امریکہ کو یہ خدشہ درپیش تھا کہ اپنی مضبوط عسکری قوت کی بنا پر سوویت یونین یورپی ممالک میں کمیونزم کے پھیلاؤ کی پشت پناہی کرے گا۔ جس کی وجہ سے یورپی ممالک جو عالمی جنگ کی وجہ سے معاشی و معاشرتی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے کمیونزم کی اس لہر کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
اس لیے جنگ سے متاثر یورپی ممالک کو کمیونزم کے داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹںے میں مدد دینے کے لیے امریکہ نے جون 1947 میں مارشل پلان متعارف کرایا تھا۔ یہ منصوبہ امریکہ کے سیکریٹری خارجہ جارج سی مارشل نے پیش کیا تھا۔
اس پلان کے تحت یورپی ممالک کو صرف معاشی امداد ہی نہیں دی گئی بلکہ امریکی محکمۂ خارجہ کے ’آفس آف ہسٹورین‘ کے مطابق مارشل پلان نے یورپ اور امریکہ میں باہمی تعاون کو فروغ بھی دیا۔
اس منصوبے کے تحت امریکہ نے یورپ کی جنگ زدہ معیشتوں کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی تھی جو 1948 میں 12 ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی۔
سوویت یونین نے مشرقی یورپ میں اپنی زیرِ اثر ریاستوں کو مارشل پلان کا حصہ نہیں بننے دیا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی یورپ کے دو بلاکس بن گئے۔
مشرقی حصہ سوویت یونین کے زیرِ اثر تھا اور مارشل پلان کی وجہ سے مغربی یورپ کے ممالک کا امریکہ کے ساتھ مضبوط باہمی تعاون قائم ہو گیا۔
یونان میں جاری خانہ جنگی اور ترکی کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے مغربی یورپ کے ملکوں میں 1947 اور 1948 کے برسوں میں اپنے دفاع اور داخلی سلامتی سے متعلق خدشات میں بڑھنے لگے اور اسی دوران یورپ کے امور میں امریکہ کا کردار بھی بڑھ چکا تھا۔
یورپ اس وقت کئی سیاسی تبدیلیوں سے بھی گزر رہا تھا۔ وسطی یورپی ملک چیکو سلواکیہ میں سوویت یونین کی مدد سے کمیونسٹ حکومت قائم ہو گئی تھی۔ اٹلی کی انتخابی سیاست میں بھی کمیونسٹ پارٹی کامیابیاں سمیٹ رہی تھی۔
برلن کا محاصرہ
اب ایک طرف مشرقی یورپ میں اپنی کامیابیوں کی وجہ سے سوویت یونین کے حوصلے بلند تھے تو ادھر مغربی جرمنی امریکہ کی مدد سے اپنے قدم جما رہا تھا۔
اس لیے مارشل پلان کے تقریباً ایک برس بعد اسٹالن نے برلن کو باقی مغربی جرمنی سے کاٹ دیا۔ خدشہ یہ تھا کہ یہ ناکہ بندی کسی نئے تصادم کو جنم دے گی لیکن امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے شہر کو فضائی راستے سے مدد دے کر براہِ راست تصادم نہیں ہونے دیا۔
بالآخر مئی 1949 میں اسٹالن کو برلن کی ناکہ بندی ختم کرنا پڑی۔ لیکن امریکی دفتر خارجہ کے’آفس آف ہسٹورین‘ کے مطابق برلن کی ناکہ بندی سے شروع ہونے والے بحران کے بعد امریکہ کو یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ مغربی یورپی ممالک کے سیکیورٹی خدشات مستقبل میں اسے سوویت یونین سے سمجھوتوں پر مجبور کر سکتے ہیں۔
اس ممکنہ صورتِ حال کا سدِ باب کرنے کے لیے اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین کی حکومت نے امریکہ اور یورپی ممالک کا ایسا اتحاد تشکیل دینے پر سوچ بچار شروع کر دی جس کے نتیجے میں امریکہ براہ راست مغربی یورپ کی سیکیورٹی میں مدد فراہم کر سکے۔
اسی مقصد کے تحت چار اپریل 1949 کو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کا اتحاد تشکیل دیا گیا۔ ابتدا میں امریکہ، کینیڈا، بیلجیم، ڈنمارک، فرانس اور برطانیہ سمیت 12 ممالک اس اتحاد کا حصہ بنے۔
اس معاہدے کے تحت امریکہ کے صدر ٹرومین نے مشترکہ دفاعی تعاون کے ایک پروگرام کی تجویز دی جس کے تحت اکتوبر 1949 میں مغربی یورپ کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے 1.4 ارب ڈالر امداد کی منظوری دی گئی۔
نیٹو کی تشکیل کے فوری بعد 1950 میں شمالی کوریا نے سوویت یونین ک مدد سے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کو سوویت یونین کے براہ راست حملے کے طور پر دیکھا گیا۔
اسی جنگ کے بعد نیٹو کا ایک مرکزی ہیڈ کوارٹر بنایا گیا اور امریکہ نے ممکنہ سوویت جارحیت کے مقابلے میں یورپی ممالک کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر دیں۔
اس کے بعد نیٹو میں دیگر ممالک کے شمولیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1952 میں نیٹو میں یونان اور ترکی کو بھی شامل کر لیا گیا۔ 1955 میں مغربی جرمنی کو نیٹو کی رکنیت دی گئی۔
نیٹو بمقابلہ وارسا
نیٹو نے شروع ہی سے تمام یورپی ممالک کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے تھے۔ تاہم اس کے رکن بننے والے ممالک کو کئی شرائط پوری کرنا لازمی ہے جن میں تمام ارکان سے شمولیت کی توثیق حاصل کرنا بھی شامل ہے۔
نیٹو کی مشترکہ دفاع سے متعلق شق پانچ کے تحت کسی بھی رکن ملک کی سالمیت یا حدود پر حملے کی صورت میں تمام ارکان ممالک کو متاثرہ ملک کی امداد کا پابند بنایا گیا تھا۔
دفاعی اتحادی کی اسی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہی وجہ تھی کہ مغربی جرمنی کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے بعد سوویت یونین نے ’معاہدہ وارسا‘ کی بنیاد ڈالی۔ 14 مئی 1955 کو سوویت یونین کے زیر اثر ریاستوں، البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ ، مشرقی جرمنی، ہنگری، پولینڈ اور رومانیہ نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
لیکن اتحاد بننے کے ایک دہائی بعد ہی اس میں شامل ممالک کو پیش آنے والی معاشی مشکلات نے رفتہ رفتہ وارسا پیکٹ کو کمزور کرنا شروع کر دیا تھا۔
بعد ازاں پے در پے سیاسی اور معاشی مسائل کے باعث 1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی وارسا پیکٹ بھی ختم ہو گیا۔
نیٹو کل اور آج
دوسری جانب نیٹو اتحاد کو 75 برس مکمل ہو چکے ہیں اور حال ہی میں سوئیڈن کی شمولیت کے بعد اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 32 ہو گئی ہے۔
امریکہ کو ان ارکان میں سب سے زیادہ طاقت ور رکن سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اتحاد کے کسی بھی ملک سے زیاہ دفاعی اخراجات کرتا ہے اور عسکری قوت میں بھی سب سے آگے ہے۔
البتہ 2014 میں روس کی جانب سے کرائمیا کے الحاق کے بعد نیٹو کے دیگر ارکان نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا تھا۔
خطے میں روس کے بڑھتے عزائم کو دیکھتے ہوئے ہر نیٹو رکن کے لیے اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا دو فی صد دفاع پر خرچ کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
تاہم ایک برس قبل یوکرین جنگ ختم ہونے کے امکانات کم ہونے کے بعد ارکان نے دفاع کے لیے کم از کم دو فی صد دفاعی اخراجات کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
گزشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں اس برس اتحاد کے ریکارڈ 23 ممالک رکن دفاعی اخراجات کا یہ ہدف پورا کرنے کے قریب ہیں۔
اس تحریر میں شامل بعض مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔
فورم