رسائی کے لنکس

پاکستان وسط ایشیائی ملکوں سے قربتیں کیوں بڑھا رہا ہے؟


  • حالیہ عرصے میں پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان روابط میں اضافہ ہوا ہے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کے ساتھ قربتیں بڑھا رہا ہے۔
  • اسلام آباد کو یہ خیال دیر سے آیا ہے کہ وسط ایشیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں: سابق سفارت کار نجم الثاقب
  • توانائی کی حالیہ شدید قلت اور افغانستان کی صورتِ حال نے وسطی ایشیا کو اسلام آباد کے لیے مزید اہم بنا دیا ہے: تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ

اسلام آباد _ پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان حالیہ عرصے میں قربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی چند روز قبل تاجکستان کا دورہ کیا تھا جس میں اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ جب کہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے اہمیت نہ ملنے پر پاکستان وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ روابط بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے جسے 'ویژن وسطی ایشیا' پالیسی کا نام دیا گیا ہے۔

اس پالیسی کے تحت اسلام آباد وسطی ایشیا کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں روابط مضبوط بنانے کے لیے پُر عزم ہے۔ کاسا 1000 توانائی منصوبے کو ویژن وسطی ایشیا کا ایک اہم جزو قرار دیا جاتا ہے۔

مبصرین پاکستان کے وسطی ایشیائی ممالک سے روابط میں اضافے کو ملک کی خارجہ پالیسی کو متنوع بنانے اور خطے میں 'سفارتی تنہائی' دور کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

'اسلام آباد کو یہ خیال دیر سے آیا ہے'

سابق سفارت کار اور پاکستان کے دفتر خارجہ میں وسطی ایشیا، ترکیہ اور ایران کے سابق ڈائریکٹر جنرل نجم الثاقب کہتے ہیں کہ اسلام آباد کو یہ خیال دیر سے آیا ہے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں جس کی ایک وجہ پاکستان کی توانائی ضروریات اور معاشی مشکلات بھی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وسطی ایشیا کبھی بھی غیر اہم نہیں تھا۔ لیکن حالیہ عرصے میں اس خطے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کے بقول پاکستان کی سفارت کاری کا پہلا محور اب معاشی اہداف کا حصول ہے اور اسی بنا پر وسطی ایشیا اسلام آباد کے سفارتی نقشے پر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جو توانائی کے حصول کی صورت میں ہیں جن میں 'ٹاپی' اور 'کاسا 1000' سرِفہرست ہیں۔

'ٹاپی' ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ (ٹاپی) ہے جب کہ کاسا 1000 میں کرغستان اور تاجکستان سے افغانستان اور پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا سکے گی۔ یہ دونوں منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔

زمینی راستے سے یورپی منڈیوں تک رسائی

اسلام آباد کے تھنک ٹینک 'صنوبر انسٹی ٹیوٹ' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ یورپی منڈی تک زمینی راستے کا حصول پاکستان کی پرانی خواہش ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کی حالیہ شدید قلت اور افغانستان کی صورتِ حال نے وسطی ایشیا کو اسلام آباد کے لیے مزید اہم بنا دیا ہے۔

قمر چیمہ کے بقول چین اور روس کے بھی وسطی ایشیا میں مفادات ہیں اور وہ اس خطے کے ممالک کو شامل کر کے شنگھائی تعاون آرگنائزیشن (ایس سی او) اور بھارت، چین، برازیل، جنوبی افریقہ اور روس پر مشتمل پانچ ملکوں کی تنظیم 'برکس' کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔

'سفارتی تنہائی دور کرنے کے لیے پاکستان وسطی ایشیا کی طرف دیکھ رہا ہے'

نجم الثاقب کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت کے زیر اثر ہیں اور اسی بنا پر سارک کا فورم غیر فعال ہو چکا ہے اور اسلام آباد کو سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب امریکہ اور مغربی ممالک افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ اسلام آباد کے لیے بھارت اور افغانستان کے تناظر میں وسطی ایشیا بہت اہم ہو جاتا ہے۔

اُن کے بقول خطے میں چین پاکستان کا ایک اہم اتحادی ہے۔ لیکن اسلام آباد نہیں چاہتا کہ وہ صرف بیجنگ پر انحصار کرے۔ لہذٰا نئے مواقع کے طور پر وسطی ایشیا سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سیاسی، سفارتی و معاشی تناظر میں وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے لیے اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ کیوں کہ ایران پائپ لائن گیس منصوبہ اور سی پیک کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

ڈاکٹر قمر چیمہ کے بقول بھارت جنوبی ایشیائی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے بعد آسیان ممالک کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے اور پاکستان کے پاس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خطے میں وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نومبر 2016 میں سارک کے 19ویں اجلاس کی میزبانی کرنے والا تھا لیکن بھارت کے اجلاس میں شرکت سے انکار کے بعد یہ فورم کئی برسوں سے غیر فعال ہے۔

سارک کا آخری سربراہی اجلاس نیپال میں 2014 میں ہوا تھا۔

قمر چیمہ کے بقول ایسے میں جب مغرب پاکستان کو اہمیت نہیں دے رہا اور انسانی حقوق اور جمہوریت پر سوال اٹھاتا ہے تو اسلام آباد بھی ان سے فاصلہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

نجم الثاقب کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع لانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے وسطی ایشیا سے تعلقات استوار اور مشرقِ وسطیٰ کے اپنے اتحادی ممالک سے تعلقات بحال کرنے چاہئیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ تاجکستان میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کو تجارتی راہداری فراہم کرنے اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے عنقریب علاقائی کنیکٹیویٹی سمٹ کی میزبانی کرے گا۔

سن 2021 میں ازبکستان میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان مواصلاتی‘ تجارتی اور معاشی روابط پر ایک بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی جس میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے شرکت کی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG