رسائی کے لنکس

کیا مودی کے دورۂ روس سے بھارت امریکہ تعلقات متاثر ہوئے ہیں؟


وزیرِ اعظم مودی نے ایسے وقت میں روس کا دورہ کیا ہے جب امریکہ میں نیٹو کا اجلاس ہورہا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے ایسے وقت میں روس کا دورہ کیا ہے جب امریکہ میں نیٹو کا اجلاس ہورہا ہے۔
  • بعض تجزیہ کار امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے اس بیان کو اہمیت دے رہے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ روس سے بھارت کے تعلقات پر امریکہ کو تشویش ہے
  • مودی نے ایسے وقت میں روس کا دورہ کیا ہے جب امریکہ میں نیٹو کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔
  • بھارتی اہلکار وزیرِ اعظم مودی کے دورۂ روس کی ٹائمنگ سے متعلق پوچھے گئے سوالوں کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔
  • خالصتانی رہنما گور پتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کے معاملے پر بھارت اور امریکہ تعلقات میں سردمہری آئی ہے، مبصرین

نئی دہلی __بھارت کے وزیرِ اعظم کے دورۂ روس پر امریکہ کے تحفظات کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اس دورے نے امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب واشنگٹن ڈی سی میں روس مخالف نیٹو اتحاد کا اجلاس ہو رہا ہے، مودی کے دورے نے بھارت کے امریکہ اور مغربی ممالک سے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔

لیکن بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دورہ پروگرام کے مطابق ہوا ہے اور اس سے امریکہ و مغرب سے بھارت کے رشتے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔

وزیرِ اعظم مودی کے روس میں دیے گئے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ ان کے دورے پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں اور خود امریکہ نے بھی کہا ہے کہ نیٹو اجلاس کے تناظر میں اس دورے پر دنیا کی نظریں لگی ہیں۔

بھارت کے روس سے دیرینہ اور تاریخی تعلقات ہیں۔ جب کہ وہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور مغرب کے قریب آیا ہے۔

نئی دہلی کے حکومتی اہل کار دورے کی ٹائمنگ پر اٹھائے جانے والے سوالات کو ہلکا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کے سیکریٹری خارجہ وجے کواترا کا دورے کے دوران کہنا تھا کہ یہ دورہ سالانہ ترتیب دیے جانے والے پروگرام کے مطابق ہو رہا ہے۔

لیکن بعض تجزیہ کار امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے اس بیان کو اہمیت دے رہے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ روس سے بھارت کے تعلقات پر امریکہ کو تشویش ہے اور اس نے بھارت کے سامنے اپنی یہ تشویش رکھی ہے۔

لیکن اس بیان کے دوسرے روز ہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ بھارت کو اپنے اسٹریٹجک شراکت دار کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اسے بھروسہ ہے کہ بھارت یوکرین میں قیام امن کے سلسلے میں کی جا رہی کوششوں کی حمایت کرے گا۔

یاد رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے موقع پر ان سے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور بموں، بندوقوں اور گولیوں کے درمیان امن مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب جنگ میں بچے ہلاک ہوتے ہیں تو دل چھلنی ہو جاتا ہے۔

'سرکاری دوروں کا شیڈول بہت پہلے طے ہو جاتا ہے'

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ دوروں کی تاریخیں سفارتی سطح پر بہت پہلے سے طے ہوتی ہیں جن میں زیادہ ردوبدل نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ ہو سکتا تھا کہ یہ دورہ نیٹو اجلاس کے بعد ہوتا لیکن اس سے بھارت کو کیا حاصل ہو جاتا۔ وہ نیٹو کا رکن نہیں ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں کوئی بہت زیادہ معنیٰ تلاش کرنا ضروری نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ روس سے بھارت کے تاریخی رشتے ہیں اور جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے اس میں دونوں کو ایک دوسرے کا 'خصوصی اسٹریٹجک شراکت دار' کہا گیا ہے جب کہ امریکہ سے رشتوں کے حوالے سے صرف 'اسٹریٹجک شراکت دار' کہا جاتا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر اس دورے میں امریکہ اور مغرب کے لیے بھارت کا کوئی پیغام ہے تو اس کے اقتصادی فروغ کی روشنی میں یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کو بھارت کے بازاروں کی ضرورت ہے۔

اُن کے بقول بھارت میں جس طرح معاشی فروغ ہو رہا ہے، وہ جلد تیسری معاشی قوت بن جائے گا۔ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ اگر مغرب اس کو سنجیدگی سے نہیں لے گا تو وہ بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لے گا۔

سکھ رہنما کے قتل کی سازش کشیدگی کی وجہ؟

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کا روس کا دورہ نومبر میں ہونے والا تھا لیکن اسے قبل از وقت کر دیا گیا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کے مابین حالیہ دنوں میں کشیدگی آئی ہے۔ خاص طور پر خالصتانی رہنما گور پتونت سنگھ پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کے معاملے پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں سردمہری آئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت امریکہ کشیدگی کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ بھارت میں جوہری سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا یا چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کا کوئی بہت بڑا سودا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کے بجائے نریندر مودی نے روس کا دورہ کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ اور مغرب نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن بھارت نے ان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور وہ امریکی انتباہ کے باوجود روس سے خاصی مقدار میں تیل خریدتا رہا جس کا ذکر مودی نے صدر پوٹن سے گفتگو کے دوران بھی کیا۔

پشپ رنجن کے بقول ان کے اس دورے سے نیٹو بہت خفا ہے۔ نیٹو میں مودی کو ’غدار‘ کہا جا رہا ہے۔ اس کے بقول ہم انھیں اپنا سمجھتے تھے لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہے۔ کئی ملک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ بھارت اور روس کے درمیان جو معاہدے ہوئے اور جن کی تفصیلات بھارتی اخباروں میں نہیں آئی ہیں، ان سے ایسا لگتا ہے جیسے بھارت نے خود کو روس کے سپرد کر دیا ہے۔

ان معاہدوں میں ایک معاہدہ بعض معاملات کی وجہ سے پریشان کن ہے اور وہ ’ریلوس‘ معاہدہ ہے۔ یعنی ’ریسیپروکل ایکسچینج آف لاجسٹکس ایگریمنٹ‘۔ اس کے تحت بھارت کے فوجی ٹھکانوں اور بندرگاہوں اور دوسرے فوجی مراکز پر روسی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔

ان کے مطابق نیٹو ممالک آپس میں اس قسم کا باہمی معاہدہ کرتے ہیں۔ لیکن اب بھارت نے روس کے ساتھ کیا ہے۔ اس معاہدے کا کافی دنوں سے انتظار تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی معاہدے ہوئے ہیں جن میں روس کو بالادستی حاصل ہو گی۔ باہمی تجارتی معاہدے بھی ہوئے ہیں۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت نے گزشتہ 10 برس کے دوران امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی بہت کوشش کی ہے جس میں دونوں ملک کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کے بقول سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں دونوں ملکوں میں دوستانہ تعلقات قائم ہوئے اور اسی دور میں بھارت نے چار ملکوں کے بلاک ’کواڈ‘ میں شمولیت اختیار کی۔

پشپ رنجن کہتے ہیں کہ بھارت ایک بہت بڑی معاشی منڈی ہے۔ اس کو ہتھیاروں کی اور امریکہ و مغرب کو بازار کی ضرورت ہے۔ روس ہی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا۔

انتخابات میں امریکی مداخلت کے الزامات

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کے دورِ حکومت میں امریکہ کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر بار بار اظہار تشویش کیا جاتا رہا۔ جب کہ بعض مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی مداخلت پر انتخابات میں بی جے پی کو کم نشستیں ملیں۔

لیکن اسد مرزا اور بشپ رنجن جہاں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی تشویش اور خالصتانی رہنما کے معاملے پر کشیدگی کی بات کی تائید کرتے ہیں وہیں وہ انتخابات میں امریکی مداخلت سے انکار کرتے ہیں۔

اسد مرزا کہتے ہیں کہ یہ محض قیاس آرائیاں ہیں، اس سلسلے میں کوئی پختہ شواہد نہیں ہیں۔ انتخابات کے دوران ایسی خبریں ضرور آئی تھیں کہ چین کی جانب سے اس کے آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے تشکیل دی گئی ویب سائٹس رائے دہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ان کے بقول اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی امور میں مداخلت کرتا ہے تو اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے، وہ اس سے آگے نہیں جا سکتا اور بھارت اور امریکہ دونوں بڑے جمہوری ملک ہیں۔ امریکہ بھارت کے اندرونی معاملات میں غیر جمہوری انداز میں مداخلت کرنے سے پرہیز کرے گا۔

پشپ رنجن کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت کو کم سیٹیں آنے کی وجہ امریکی مداخلت نہیں بلکہ اندرونی ایشوز رہے ہیں۔ امریکہ نے انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ بلکہ امریکہ کو اور یہاں تک کہ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے کو بھی یہ اندازہ تھا کہ کسی بھی طرح یہی حکومت واپس آئے گی۔ لہٰذا وہ اسی حکومت کے ساتھ آئندہ کے معاملات طے کر رہے تھے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG