رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: 'تحریکِ انصاف کو وہ ریلیف ملا جو اس نے مانگا ہی نہیں تھا'


  • فیصلہ سنانے والا بینچ آیا تو قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ اکثریتی فیصلہ ہے اور آٹھ ججز کی اس میں اکثریت ہے۔
  • اختلاف کرنے والوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔
  • اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور یہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔
  • جوں جوں فیصلہ سنایا جا رہا تھا تحریکِ انصاف کے قائدین کے چہروں پر مسکراہٹوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔

اسلام آباد — مخصوص نشستوں کے کیس میں جب نو جولائی کو فل کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تو بہت سے لوگوں کی یہ رائے تھی کہ فیصلہ منقسم ہو گا۔ لیکن اس نوعیت کے فیصلے کی توقع شاید صرف تحریکِ انصاف والے ہی کر رہے تھے۔

دن گیارہ بجے سپریم کورٹ پہنچے تو ریڈ زون کا ماحول دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ سرینا چوک کی طرف سے جانے والا راستہ مکمل بند کردیا گیا تھا۔

جناح ایونیو والا راستہ کھلا تھا لیکن وہاں موجود اہلکار ہر ایک کی شناخت پوچھ رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے باہر گیٹ پر بھی تلاشی اور شناخت دکھانے پر ہی آگے جانے کی اجازت تھی۔ کورٹ روم نمبر ایک کی طرف بھی ہر کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔

کمرۂ عدالت میں وقت سے پہلے پہنچے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تین رکنی بینچ کے ساتھ معمول کے کیسز سن رہے تھے۔ لیکن 11 بج کر 45 منٹ پر وہ سماعت ختم کر کے چلے گئے اور 12 بج کر 10 منٹ پر فیصلہ سنانے والا بینچ آیا تو قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ اکثریتی فیصلہ ہے اور آٹھ ججز کی اس میں اکثریت ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ سنائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی منصور علی شاہ نے فیصلہ سناتے ہوئے اس کے اہم نکات بتائے اور الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔ اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور یہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

فیصلہ پانچ کے مقابلے میں آٹھ ججز کی اکثریت سے دیا گیا۔ اختلاف کرنے والوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ تحریکِ انصاف سے ہیں تو انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔ پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔

جس وقت فیصلہ سنایا جارہا تھا اس وقت الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل، سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے وکلا سمیت کئی قائدین کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

جوں جوں فیصلہ سنایا جا رہا تھا تحریکِ انصاف کے قائدین کے چہروں پر مسکراہٹوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ان میں سے بعض قائدین ایک دوسرے کے ساتھ کمرۂ عدالت میں ہی ہاتھ ملا ملا کر مبارکباد دے رہے تھے۔

فیصل جاوید کمرۂ عدالت سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر نکلے اور سب سے پہلے میڈیا کارنر میں جا کر کھڑے ہوگئے۔

تقریباً 15 منٹ تک مختصر عدالتی فیصلہ سنایا گیا۔ اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خاموشی کے ساتھ فیصلہ سنتے رہے۔

مختصر فیصلہ سننے کے بعد مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ تحریکِ انصاف کے کارکن اور قائدین کمرۂ عدالت سے نکلے اور باہر میڈیا کارنر کے قریب پہنچے جہاں پی ٹی آئی کی خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

وہاں موجود کارکنان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے نعرے لگائے اور اُن کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

اس دوران صحافی مطیع اللہ جان نے تبصرہ کیا کہ اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ 11 ججز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غلط کہا ہے۔ لہذا اب چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا اپنے عہدوں پر برقرار رہنا درست نہیں ہو گا۔

اس دوران تحریکِ انصاف کے ناقد ایک صحافی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا ہے جو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG