|
ویب ڈیسک _ یوکرین کی بہترین انٹیلی جینس معلومات اور امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کو روس کے سرحدی علاقوں پر یوکرین کے قبضے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اگر یوکرین کو فراہم کیے گئے مزید جدید ترین ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا تو یوکرینی فورسز کی پیش رفت مزید تیز ہو سکتی تھی۔
یوکرینی فورسز نے نو دن قبل روس کے سرحدی علاقے کرسک پر حملہ کیا تھا اور اب بھی یہاں پیش قدمی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
یوکرین یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ اس کی فورسز نے ایک ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے لگ بھگ 70 املاک کو تحویل میں لے لیا ہے۔
یوکرین کا حملہ روس کی سر زمین پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد پہلی بار کسی اور ملک کی فوج کی در اندازی قرار دی جا رہی ہے۔
یوکرین کی فوج کے سابق ترجمان ولادیسالو سیلزنیوف نے کہا ہے کہ یوکرین کی فوج کی خفیہ معلومات اور امریکہ کے فراہم کیے گئے ہائی موبیلیٹی آرٹیلری راکٹ سسٹم (ہیمرز) نے یوکرینی فورسز کی پیش قدمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ولادیسالو سیلزنیوف نے وائس آف امریکہ کی روسی سروس سے گفتگو میں مزید بتایا کہ یوکرین کے پاس موجود خفیہ معلومات بالکل درست ثابت ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے روس کی فوج کی مدد کے لیے آنے والے ٹینک، توپ خانے اور ڈرون طیاروں کو یوکرین نے تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ممکنہ طور پر لڑائی کے دوران روس کے جنگی طیارے بھی نشانہ بنے ہیں۔
امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس کے لیے حقیقت میں ہیمرز ایک بڑا مسئلہ ثابت ہوئے ہیں جس نے روسی فوج کے ہتھیاروں، آلات اور دیگر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق یوکرین کو اس خطے میں روسی فوج کی جانب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یوکرینی فورسز کی پیش قدمی سست ہے۔
بعض مبصرین قرار دے رہے ہیں کہ یوکرین کو مغربی ممالک سے فراہم کیے گئے طویل فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کو نقصان ہو رہا ہے۔ ان میں ای کی ایم 140 آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم شامل ہے جس سے ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل سے لگ بھگ 300 کلومیٹر دور اہداف کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔
امریکہ میں قائم غیر سرکاری تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں روسی پروگرام کے ڈائریکٹر جان ہارڈی کہتے ہیں کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ شاید امریکہ ہے۔ اگر امریکہ یوکرین کو روس کی سرزمین پر آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم استعمال کرنے کی اجازت دیدے تو برطانیہ اور شاید فرانس بھی یوکرین کو فراہم کیے گئے کروز میزائل کے استعمال کے لیے امریکہ کی پیروی کریں گے۔
ان کے بقول یوکرین کی حالیہ در اندازی میں اسے فراہم کردہ ہتھیار مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یوکرین کی فوج روس کے جس علاقے میں داخل ہوئی ہے اس کے گورنر نے کرسک شہر کے ضلع گلشکوف کے مکینوں کو علاقہ خالی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ علاقہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ واقع ہے جہاں لگ بھگ 20 ہزار افراد آباد ہیں۔
کرسک کے گورنر الیکسی سمرنوف نے سوشل میڈیا میسیجنگ ایپلی کیشن ’ٹیلی گرام‘ پر ایک جاری ایک بیان کہا کہ پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار شہریوں کے انخلا میں معاونت کے ذمہ دار ہیں۔
یوکرین کے دو ہفتے قبل شروع کی گئی اس کارروائی کے بعد روسی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں سے پہلے ہی دو لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر چکے ہیں۔
دوسری جانب یوکرین کی فوج نے بدھ کو دعویٰ کیا ہے کہ اس کے اہلکار کرسک کے علاقے میں مزید لگ بھگ دو کلو میٹر تک آگے جا چکے ہیں۔
بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سرحدی علاقے سودزہ پر قبضہ کر لیا ہے اور روس کی فوج کو یہ علاقہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مغربی میڈیا میں ایسی سیٹیلائٹ تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جن میں واضح ہو رہا ہے کہ روس کی فوج نے بہت بڑے علاقے میں خندق کھود دی ہیں۔
رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خندق کھودنے کا مقصد یوکرین کی فوج کی پیش قدمی روکنا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین کی سرحد سے 45 کلومیٹر دور یہ خندق کب کھو دی گئی ہے۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ جن علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے اس سے یہاں ایک بفرزون بنانے کا موقع مل جائے گا جس سے روس کی فوج کو ان علاقوں سے یوکرین پر مزید حملوں سے روکنا ممکن ہو سکے گا۔
یوکرین نے گزشتہ ہفتے کے آغاز میں روس پر اچانک اور غیر متوقع حملہ کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق یوکرین کے حملے سے ماسکو کو بھی دھچکا لگا ہے۔
یوکرینی صدر ولودومیر زیلینسکی نے کہا ہے کہ انہوں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ مفتوحہ علاقے پر اگر ضرورت محسوس ہوئی تو فوج کا کمانڈ آفس بھی قائم کر دیا جائے گا۔
صدر زیلینسکی نے میسیجنگ ایپلی کیشن ’ٹیلی گرام‘ پر ایک بیان میں کہا کہ یوکرین کی فوج کرسک میں مسلسل پیش قدمی میں مصروف ہے اور بدھ کو فوج نے مزید ایک سے دو کلو میٹر کے علاقے میں پیش قدمی کی ہے۔
بدھ کی شب خطاب میں صدر زیلینسکی نے کہا کہ کرسک میں کارروائی کے دوران روس کے قیدیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ ان قیدیوں کے بدلے میں یوکرین روس میں قید یوکرینی جنگجوؤں کی رہائی کی کوشش کرے گا۔
صدر زیلینسکی کے مطابق کرسک میں کارروائی کے دوران یوکرین اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہو رہا ہے۔
دوسری جانب روس نے بھی یوکرین کو نشانہ بنانے کے لیے حملے کیے ہیں اور روسی افواج نے کرسک سمیت دیگر سرحدی علاقوں سے بدھ کو گولہ باری جاری رکھی۔
’رائٹرز‘ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرینی فورسز کو علاقے سے بے دخل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
روسی صدر کے دعوے کے باوجود ان کی فورسز لگ بھگ دو ہفتوں کے دوران یوکرین کی فوج کو اپنے علاقوں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
صدر پوٹن نے کہا کہ یوکرین کی کوشش ہے کہ وہ مغرب کی پشت پناہی سے مستقبل میں کسی بھی جنگ بندی مذاکرات میں خود کو مضبوط پوزیشن میں پیش کر سکے۔
روس نے فروری 2022 میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس اس کارروائی کو خصوصی ملٹری آپریشن قرار دیتا ہے۔ البتہ اس جنگ میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔
روس کے فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
یوکرین کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بدھ کو چار مختلف مقامات پر روس کے فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔
یوکرین کے جنرل اسٹاف آف آرمی کے مطابق فوج نے روس میں وورونز، نزنی نوگورڈ اور کرسک سمیت چار مقامات پر فضائی تنصیبات، تیل کے ذخیروں اور ہتھیاروں کے گودام تباہ کر دیے ہیں۔
صدر زیلینسکی نے ان حملوں کو بر وقت اور باکل درست قرار دیا ہے۔
یوکرینی فوج نے روس کا ایک سخوئی جنگی طیارہ بھی تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ روس کا کہنا ہے کہ اس کی فوج نے یوکرین کے 117 ڈرون تباہ اور متعدد میزائلوں کو بھی فضا میں ناکارہ بنا دیا ہے۔
کرسک میں جس مقام پر یوکرین اور روس کی فوج میں لڑائی جاری ہے اس سے لگ بھگ 35 کلومیٹر کے فاصلے پر جوہری بجلی گھر بھی قائم ہے۔ روس کے نیشنل گارڈز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس جوہری بجلی گھر کی حفاظت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ کرسک سمیت جنگ سے متاثرہ اس علاقے میں انسانی ہمدری کی بنیاد پر ایک راہداری بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ یہاں سے یوکرین اور روس دونوں ممالک کے شہریوں کو انخلا کا موقع مل سکے۔ اس راہداری کے قیام میں اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس کو بھی شامل کیا جائے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ روس اور مغرب اب تک یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ امریکہ کی قیادت میں عسکری اتحاد نیٹو اور روس کے براہِ راست تصادم سے گریز کیا جائے۔ لیکن نیٹو میں شامل امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک نے یوکرین کو ہتھیار اور دیگر فوجی امداد فراہم کر رہے ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ امریکی حکام یوکرین کی پیش قدمی پر مسلسل رابطے میں ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے یوکرین کی روس میں در اندازی پر کہا ہے کہ واشنگٹن کو اس حوالے سے پیشگی مطلع نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی امریکہ اس میں کسی طرح ملوث ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے کچھ معلومات شامل کی گئی ہیں۔