|
کوئٹہ -- بلوچستان کے ضلع پنجگور میں مسلح افراد کی فائرنگ سے زیرِ تعمیر ڈیم کی سیکیورٹی پر مامور پانچ نجی سیکیورٹی گارڈز ہلاک ہو گئے ہیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو مقامی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ ایرانی سرحد سے متصل پنجگور کی تحصیل پروم میں پیر اور منگل کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب پرائیویٹ سیکیورٹی اہلکار ڈیم کے قریب گشت میں مصروف تھے۔
پروم ضلع پنجگور کی تحصیل ہے جو پنجگور شہر سے تقریباً 200 کلو میٹر دور پاکستان ایران کے سرحدی علاقے میں واقع ہے۔
پنجگور لیویز کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ شب تقریباً 12 بجے کے قریب پروم میں ایک زیرِ تعمیر ڈیم پر پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز معمول کے گشت پر تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں پانچ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
اُنہوں نے بتایا کہ واقعے کے دوران دو افراد وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے اور وہ معمولی زخمی ہیں۔
لیویز حکام نے بتایا ہے کہ ان افراد کو سر اور سینے میں گولیاں لگی ہیں۔ واقعے میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد میں سے تین کا تعلق ضلع پنجگور، ایک کوئٹہ اور ایک کا تعلق صوبہ سندھ سے بتایا جاتا ہے۔
حکام نے ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت ظاہر علی، امین اللہ،محمد نواز، حسین شاہ اور عبدالغفور کے ناموں سے کی ہے۔
'معمول کے گشت پر تھے کہ مسلح افراد وہاں پہنچ گئے'
زخمیوں کے مطابق وہ معمول کے مطابق ڈیم کے چاروں اطراف گشت پر تھے کہ نامعلوم مسلح نقاب پوش افراد وہاں پہنچے اور کہا کہ اب تک کام کیوں بند نہیں ہوا جس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا.
زخمی افراد نے انکشاف کیا ہے کہ اس سے قبل بھی ڈیم کی تعمیر کو روکنے سے متعلق مسلح افراد دھمکیاں دے چکے تھے۔
پنجگور کے ایک مقامی صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پروم کے علاقے میں 2021 میں "پروم ڈیم" اور ایک سڑک کی تعمیر کا کام ایک غیر مقامی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ تاہم امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث کمپنی نے یہ کام مقامی ٹھیکے دار کے سپرد کیا۔
صحافی کے مطابق مقامی ٹھیکے دار نے ڈیم اور سڑک کی تعمیر کے دوران کسی بھی ناخوش گورار واقعے سے نمٹنے کے لیے یہاں پرائیویٹ گارڈز تعینات کر رکھے تھے۔
امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث ڈیم اور سڑک کی تعمیر کا کام سست روی کا شکار تھا اور متعدد بار ٹھیکے دار کو یہ کام روکنا بھی پڑا۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں رواں سال مزدوروں اور تعمیراتی کمپنی کے اہلکاروں پر اپنی نوعیت کا یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل پنجگور شہر میں مسلح افراد کی فائرنگ سے سات مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
بلوچستان میں رواں سال مزدوروں اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر پے درپے حملوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اپریل میں نوشکی کے علاقے میں مسلح افرادنے کوئٹہ سے ایران جانے والی قومی شاہراہ پر ایک مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اغوا کرنے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
مئی میں مسلح افراد نے گوادر کے علاقے سربندر فش ہاربر جیٹی کے ایک کوراٹر میں سات مزدوروں کو اس وقت فائرنگ کر کے ہلاک کیا جب وہ ایک رہائشی کوارٹر میں سو رہے تھے۔
اگست میں بلوچستان کے علاقوں موسیٰ خیل، بولان، مستونگ، کھڈ کوچہ، کچھی، قلات اور لسبیلہ میں بیک وقت حملے ہوئے جس میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 60 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان حملوں کی ذمے داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔
رواں ماہ بلوچستان کے ضلع دکی میں ایک کوئلے کی کان پر مسلح افراد نے حملہ کر کے 20 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالا سلطان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ مزدوروں کو بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا رواں سال اب تک بلوچستان بھر میں بم دھماکوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 70 مزدور ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان مزدوروں میں کان کن، تعمیراتی کمپنی کے اہلکار اور روزانہ مزدوری کرنے والے افراد شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی بے روزگاری ہے اور اس طرح مزدوروں کو قتل کرنے کے واقعات سے مزدور ایک جانب خوف کا شکار ہیں تو دوسری جانب وہ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
فورم