رسائی کے لنکس

پاکستان میں ہراسانی کے حالیہ واقعات: شوبز شخصیات کا بھی بھرپور ردِ عمل


لاہور میں اس قسم کے واقعات پر جہاں سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا وہیں شوبر ستارے بھی ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
لاہور میں اس قسم کے واقعات پر جہاں سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا وہیں شوبر ستارے بھی ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان کے شہر لاہور میں خواتین سے دست درازی، بد سلوکی اور ہراسانی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین سمیت پاکستان شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جانب سے بھی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں جہاں ایک خاتون کو سیکڑوں افراد کی جانب سے ہراساں کیا گیا وہیں اسی رات رکشے میں سوار ایک خاتون کے ساتھ بد سلوکی کی ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی تھی۔

اس ویڈیو کے سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر خواتین کے ساتھ بد سلوکی اور ہراسانی کے خلاف ایک بحث چھڑ گئی ہے۔

لاہور میں اس قسم کے واقعات پر جہاں سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا وہیں شوبر ستارے بھی ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

پاکستانی اداکارہ ثانیہ سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک 'مجرم' قانون کی گرفت میں نہیں آئے گا، اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی خاتون کے ساتھ کسی بھی جگہ اس قسم کی حرکت کرنا معاشرے کی نا کامی اور حکومت کی کمزوری ہے۔ جو اپنے عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔

ثانیہ سعید کے بقول رکشے میں خاتون سے بد سلوکی کا واقعہ ہو یا مینار پاکستان میں خاتون کے ساتھ مردوں کے ہجوم کی جانب سے دست درازی، ان واقعات پر صرف اس لیے یقین کیا جا رہا ہے کیوں کہ ان کی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی تھیں۔

ان کے بقول، "اس طرح کے واقعات تو اکثر ہوتے ہیں لیکن یا تو متاثرہ خواتین پر کوئی یقین نہیں کرتا یا ان کے گھر والے ان واقعات کے خلاف شکایت درج نہیں کراتے۔"

اداکارہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم خواتین کے تحفظ سے متعلق مکمل لاقانونیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ایسے تمام عناصر جو خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ بے خوف ہوتے ہیں کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔

ثانیہ سعید کا مزید کہنا تھا کہ سزا نہ ہونے کی وجہ سے بالعموم یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ جرائم جائز ہیں اور بجائے مجرموں کے خلاف تفتیش کے، تحقیق اس بات پر ہوتی ہے کہ متاثرہ خاتون نے ایسا کیا کر دیا جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔

'حکومت یا کوئی بھی ادارہ مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کر سکتا'

پاکستانی اداکارہ ژالے سرحدی کا کہنا تھا کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو تو تربیت دے دیتی ہیں کہ باہر کیسے رہنا ہے، کیسے لوگوں سے بچنا ہے، اگر بیٹوں کو بھی یہ تربیت دی جائے تو ان واقعات میں کمی آ سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ژالے سرحدی کا کہنا تھا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے قانون لائے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت یا کوئی بھی ادارہ مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی گھر گھر جا کر لوگوں کو یہ تعلیم دی جا سکتی کہ وہ اپنے بچوں کی کس طرح تربیت کریں۔

ان کے بقول، "اگر ہم اپنے قریبی اسلامی مماک پر نظر ڈالیں تو وہاں ایسے واقعات اس لیے نہیں ہوتے کیوں کہ لوگوں کو سزا کا خوف ہوتا ہے۔"

'تمام مرد بُرے نہیں ہوتے'

معروف اداکار احسن خان کا کہنا تھا کہ اگر اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تو آئندہ کسی بھی لڑکی کے ساتھ بد سلوکی کرنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوگی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو الزام دینے سے پہلے ان لوگوں کی گھریلو تربیت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام مرد بُرے نہیں ہوتے جن کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے وہی اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔

اداکارہ ثانیہ سعید نے بھی احسن خان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات صرف معاشرے کا قصور نہیں بلکہ اُن افراد کے گھروں کی تربیت کی بھی مکمل نا کامی ہے۔

احسن خان کا یہ بھی کہنا تھا جو شہری 14 اگست کو سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے باہر نکلتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کی آزادی کا دن ہے، نہ کہ کسی کی بے عزتی کرنے کی آزادی کا دن۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے نا صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ متاثرہ افراد کی زندگی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

اداکار احسن خان کے بقول پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ان کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب یہ واقعات سامنے آ رہے ہیں مگر ایسے بے شمار افراد کے ساتھ اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں جو سامنے نہیں لائے جاتے۔

کیا ڈراموں میں ان واقعات کی عکاسی سے معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟

اداکار احسن خان کا کہنا ہے کہ ٹی وی ڈراموں میں کسی کی عزت مجروح کرنے کو ہمیشہ ہی غلط دکھایا گیا ہے لیکن جب نیوز چینلز پر مُکے، لاتیں اور گالم گلوچ چلے گی تو کون انٹرٹینمنٹ چینل پر سبق آموز ڈرامے دیکھے گا۔

ان کے بقول سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے کچھ نہیں ہو گا، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر اچھے کے ساتھ ساتھ بُرا مواد بھی ہوتا ہے جس کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔

احسن خان کا کہنا ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں فون ہو جس پر ہر قسم کی ویڈیوز دستیاب ہوں تو پھر ڈراموں اور فلموں کا اثر و رسوخ پیچھے چلا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سائبر قانون دنیا کے دیگر ممالک میں تیز ہو سکتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی ہونا چاہیے۔

خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعے کے خلاف شوبز سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے ردِ عمل کا اظہار اپنے انداز میں کیا ہے۔

اداکار عثمان خالد بٹ نے کہا کہ اُن افراد کو سزا ہونی چاہیے جو اس گھناؤنی واردات میں ملوث تھے۔

اداکارہ ماورہ حسین نے بھی ان واقعات پر ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ متاثرہ خواتین کو مورد الزام ٹھیرانے کے بجائے ایسی حرکتیں کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

اداکارہ ثنا جاوید نے بھی خواتین سے بدسلوکی کرنے والوں کے لیے جہنم سے بھی بد تر جگہ کا مطالبہ کیا تھا۔

اداکارہ منشا پاشا اور زاہد احمد نے بھی ان واقعات پر تنقید کرتے ہوئے سزاؤں کا مطالبہ کیا تھا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG