بین الاقوامی بون کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی حدود سے باہر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں سمیت دہشت گردی کے خطرات سے متعلق علاقائی عوامل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن ماضی میں صدر کرزئی اور اُن کی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار بار بار یہ الزام لگا چکے ہیں کے ملک میں جاری طالبان بغاوت کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قائم القاعدہ اور اس سے منسلک دیگر انتہا پسند تنظیموں کی معاونت حاصل ہے۔
افغان صدر نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ اُن کے ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ’’ایک مستحکام، خود انحصار اور جمہوری افغانستان کے مشترکہ ہدف کا حصول ابھی بہت دور ہے۔ درحقیقت باقی ماندہ حل طلب مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ وہ اب تک کی جانے والی پیش رفت کو پٹڑی سے اتار کر کامیابیوں کا رخ موڑ سکتے ہیں۔‘‘
حامد کرزئی کے بقول کامیابیوں اور پیش رفت کو اٹل بنانے کے لیے افغانستان کو کم از کم آئندہ ایک دہائی تک بین الاقوامی برادری کی بھرپور حمایت درکار ہو گی۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں افغانستان کو یقین دلایا ہے کہ وہ 2014ء میں غیر ملکی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکہ کی حمایت پر تکیہ کر سکتا ہے۔ ’’امریکہ ایک طویل عرصے تک افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
لیکن اُنھوں نے کہا کہ اس کے بدلے افغانوں کو اصلاحات، انسداد بدعنوانی اور ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔
ہلری کلنٹن نے متنبہ کیا کہ اگر افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی اور عدم استحکام کا ذریعہ بنتا ہے تو بین الاقوامی برادری کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
اُنھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ افغانستان کے لیے عالمی بینک کی زیر نگرانی قائم فنڈ میں امریکہ اپنا حصہ دوبارہ ڈالنا شروع کر دے گا۔ امریکی حکام کے مطابق اس اقدام سے افغانستان کو مزید تقریباً 70 کروڑ ڈالر دستیاب ہو سکیں گے۔
کانفرنس سے خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں میں بڑے چیلنجوں کا سامنا رہے گا لیکن ان سے عالمی برادری کا عزم متزلزل نہیں ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی، سلامتی کے خدشات اور منشیات جیسے مسائل سے نمٹنے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا کردار کلیدی ہے۔ ایران، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان میں سیاسی مفاہمت (کی کوششوں) میں صرف اس صورت پیش رفت کی جا سکتی ہے کہ اگر ہمسایہ ممالک اس کی حمایت کریں۔‘‘
بان کی مون نے شرکاء کو اُس پیش رفت کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جو گزشتہ 10 برسوں میں افغانستان میں بین الاقوامی برادری کے تعاون سے کی گئی ہے۔ ’’ہم نے مل کر 46 لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی ممکن بنائی ہے، 76 لاکھ اضافی بچوں کا اسکولوں میں اندراج ہوا ہے، اور صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی ہیں، ملک کا 80 فیصد حصہ پولیو سے پاک ہو چکا ہے، پہلے سے زیادہ خواتین کو اختیارات ملے ہیں اور وہ اپنے علاقوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔‘‘
بون کانفرنس میں 80 سے زائد ملکوں کے نمائندے 2014ء تک افغانستان سے تمام اتحادی افواج کی واپسی کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کر رہے گے۔ توقع ہے کہ جرمنی کے سابقہ دارالحکومت میں منعقدہ کانفرنس میں زیر بحث آنے والے موضوعات میں افغان سکیورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریوں کی منتقلی، طالبان شدت پسندوں سے مفاہمت، اور طویل المدتی بین الاقوامی امداد نمایاں رہیں گے۔
لیکن افغانستان میں استحکام کے لیے ناگزیر سمجھا جانے والا ملک پاکستان اس بین الاقوامی اجلاس میں احتجاجاً شرکت نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں 26 نومبر کو نیٹو حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیٹو حملے کے بعد احتجاجاً پاکستانی قیادت کا بون کانفرنس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ درست ہے، لیکن اُن کے بقول اپنے موقف کا دفاع کرنے کے لیے اسلام آباد کو اپنا کوئی مندوب اس اجلاس میں بھیجنا چاہیئے تھا۔ ’’کہیں وہ کوئی ایسی قرارداد منظور نا کریں جو کہ (ہمارے) قومی مفاد میں نا ہو تو کسی نا کسی کو بھیجنا اچھی چیز تھی۔‘‘
سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی اور خود وفاقی کابینہ نے افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں شرکت نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کے اس اقدام کی توثیق پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے بھی کی ہے۔
ایک روز قبل افغان صدر نے پاکستان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ مصالحتی عمل کے اہداف کے حصول میں افغانستان کی مدد نہیں کر رہا ہے۔ جرمن ہفت روزہ جریدے ’’اشپیگل‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ ’’تاحال وہ (پاکستان) طالبان کی قیادت کے ساتھ بات چیت میں مدد سے انکاری ہے۔‘‘
مسٹر بان نے بھی اتوار کو بون کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت پر اظہار افسوس کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے پاکستان کے فیصلے کو ’’افسوس ناک‘‘ قرار دیا لیکن کہا کہ یہ کانفرنس کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہو گا۔
دس برس قبل بون ہی میں منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں افغانستان کے لیے عبوری حکومت کی منظوری دی گئی تھی۔