افغانستان کی حکومت نے رواں سال جنوری سے مئی کے دوران ملک کے پانچ فیصد علاقے کا کنٹرول یا اس پر اثرورسوخ کھو دیا ہے، جس سے جنگ سے تباہ حال اس ملک کی سکیورٹی فورسز کو درپیش چیلنجز کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ بات افغانستان سے متعلق امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین نگران اداے "اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن" (ایس آئی جی اے آر) کی طرف سے جمعہ کو جاری کی گئی رپورٹ میں بتائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق جنوری میں افغان حکومت تقریباً 70.5 فیصد علاقے پر کنٹرول رکھتی تھی جو کہ مئی کے اواخر میں کم ہو کر 65.6 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہ اعدادوشمار افغانستان میں موجود امریکی فورسز کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے گئے۔
رپورٹ میں علاقے کے ہاتھ سے نکل جانے کے بارے میں امریکی فورسز کے حوالے سے کہا گیا کہ "افغان فورسز کو کم ترجیحی علاقوں سے جارحانہ آپریشنز اور حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا۔"
افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن کہتے ہیں کہ طالبان کے زیر تسلط زیادہ تر دیہی علاقے ہیں۔
تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ عسکریت پسندوں نے اسی عرصے کے دوران دس اضلاع پر بھی اپنا اثرورسوخ قائم کیا۔
رپورٹ میں ظاہر کی گئی شرح کے مطابق دیکھا جائے تو تقریباً 400 اضلاع میں سے کم ازکم 19 میں حکومت کی عملداری نہیں ہے۔
2001ء میں امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج نے افغانستان میں القاعدہ کے خلاف فوجی مداخلت کرتے ہوئے طالبان کو اقتدار سے نکال باہر کیا تھا جس کے بعد یہ فوجیں ملک میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف رہیں۔
2014ء کے اواخر میں لڑاکا مشن مکمل ہونے پر بین الاقوامی افواج اپنے وطن واپس چلی گئی تھیں جس کے بعد ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت لگ بھگ 12000 بین الاقومی فوجی افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے موجود ہیں۔
ان فوجیوں میں اکثریت امریکیوں کی ہے۔
طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور خاص طور پر ملک کے جنوبی اور شمالی حصے میں سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔