واشنگٹن —
افغان پارلیمان نے خواتین پر تشدد کے خلاف بل پرعملدرآمد موخر کر دیا ہے۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی جانب سے یہ اقدام قدامت پسند ملک افغانستان میں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو طالبان کے دور کے بعد اب اپنی آزادی کی سمت قدم اٹھا رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دور ِ حکومت میں خواتین کو سخت قوانین کا سامنا تھا۔ اس دور میں بچیوں کے سکولوں میں داخلے پرپابندی تھی اور ان کا گھر سے باہر نکلنا اور معاشرے میں گھلنا ملنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔
افغان پارلیمان میں خواتین کے حقوق کے لیے منظور نہ کیے جانے والے بل پر چند قانون سازوں نے اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ خواتین کے اس مجوزہ بل میں چند نکات ’غیر اسلامی‘ ہیں، جنہیں نکالنا ضروری ہے۔
خواتین پر عدم تشدد کے اس بل پر 2009ء میں افغان صدر حامد کرزئی نے دستخط کرکے اسے منظور کیا تھا۔ ایک خاتون قانون ساز نے یہ بل پارلیمان کے سامنے پیش کیا تاکہ بعد میں آنے والا کوئی دوسرا صدر اس قانون کو ختم نہ کر سکے۔
خواتین کے حقوق کے اس بل میں خواتین کی زبردستی کی شادی اور بچیوں کی بہت چھوٹی عمر میں شادی کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارلیمان کی جانب سے یہ اقدام قدامت پسند ملک افغانستان میں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو طالبان کے دور کے بعد اب اپنی آزادی کی سمت قدم اٹھا رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دور ِ حکومت میں خواتین کو سخت قوانین کا سامنا تھا۔ اس دور میں بچیوں کے سکولوں میں داخلے پرپابندی تھی اور ان کا گھر سے باہر نکلنا اور معاشرے میں گھلنا ملنا معیوب تصور کیا جاتا تھا۔
افغان پارلیمان میں خواتین کے حقوق کے لیے منظور نہ کیے جانے والے بل پر چند قانون سازوں نے اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ خواتین کے اس مجوزہ بل میں چند نکات ’غیر اسلامی‘ ہیں، جنہیں نکالنا ضروری ہے۔
خواتین پر عدم تشدد کے اس بل پر 2009ء میں افغان صدر حامد کرزئی نے دستخط کرکے اسے منظور کیا تھا۔ ایک خاتون قانون ساز نے یہ بل پارلیمان کے سامنے پیش کیا تاکہ بعد میں آنے والا کوئی دوسرا صدر اس قانون کو ختم نہ کر سکے۔
خواتین کے حقوق کے اس بل میں خواتین کی زبردستی کی شادی اور بچیوں کی بہت چھوٹی عمر میں شادی کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے۔