پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان مفاہمتی عمل میں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، پاکستان نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، جس کے اعتراف میں پاکستان کو مداخلت کار کی بجائے سہولت کار تسلیم کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان جمعرات کو قطر کے ایک روزہ سرکاری دورے پر جا رہے ہیں، جہاں وہ امیر قطر کے ساتھ افغان مفاہمت کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔
شاہ محمود نے واضح کیا کہ وزیراعظم 29 فروری کو افغان مفاہمت کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے، البتہ وہ بطور وزیر خارجہ اس موقع پر پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’آپ وہاں کیوں نہ ہوں، کیونکہ آپ کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ آپ اس لیے وہاں ہو کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپ ثالث تھے اور آپ کی ثالثی کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جس کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے‘‘۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہونے والے ہیں جس کے لئے قطر نے پاکستان کو شرکت کی دعوت دے رکھی ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دوٹوک فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی اور اسی بنا پر صدارتی انتخابات میں ہمارا کوئی پسندیدہ امیدوار نہیں تھا۔
افغان صدارتی انتخابات کے نتائج پر شاہ محمود کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم، ہماری خواہش ہے کہ اس اندرونی معاملے کے باعث امن کے سفر میں تعطل پیدا نہ ہو، جو بہت محنت کے ساتھ طے کیا گیا ہے۔
امریکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف سے نکلتا دیکھنا چاہتا ہے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے جون میں نکلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
امریکی سیکریٹری تجارت ولبر راس سے ملاقات کے حوالے سے بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو امریکہ پہلے پاکستان پر تنقید کرتا تھا وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے اقدامات کی تعریف کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ولبر راس نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے 14 نقاط پر مکمل عمل درآمد کر چکا ہے، جبکہ دیگر پر بھی قابل قدر پیش رفت جاری ہے۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف میں سفارتی حمایت کے لئے وزیر خارجہ شاہ محمود نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے واشگٹن میں ہونے والے ملاقات میں بات کی تھی۔
خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں دہشت گردوں کی مالی ترسیل روکنے کے لیے موثر اقدمات نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں شامل کیا تھا۔ اس لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو ایک 'ایکشن پلان' بھی تجویز کیا گیا تھا۔
پاک امریکہ تعلقات میں تبدیلی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کے وزیر کامرس ولبر روس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر دہلی سے براہ راست اسلام آباد پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے فروغ، پاکستان کی برآمدات میں اضافے اور طویل المدتی تجارتی پہلوؤں کا جائزہ لینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر تجارت کے ساتھ بات چیت میں پاک امریکہ آزادانہ تجارتی معاہدے کی بنیاد رکھنے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 2018 میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اسلام آباد آئے تھے تو کیا ماحول تھا، اگست 2017 میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی بیان آیا تھا تو افغانستان میں ہمیں اس وقت مسئلے کا حصہ سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن، اب ہمیں مسئلے کے حل کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں خوش گوار تبدیلی آچکی ہے جس کا مظاہرہ صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران دیکھا گیا۔
وزیر خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے سفری ہدایت نامے میں مزید بہتری لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نے حال ہی میں سفری ہدایت نامے میں بہتری لائی ہے اور برطانیہ کی طرح اس میں مزید بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ احمد آباد کے اسٹیڈیم میں صدر ٹرمپ نے بے جے پی کے کارکنوں کے اجتماع کے سامنے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا نہ صرف برملا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ عمران خان ان کے اچھے دوست ہیں۔
شاہ محمود نے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ کے پاکستان کی تعریف میں الفاظ مودی کے دل پر بھاری گزرے ہوں گے اور پاکستان کی سفارت کاری آہستہ آہستہ رنگ لا رہی ہے‘‘۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کی پیش کش کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔
ٹرمپ علیحدہ سے اسلام آباد کا دورہ کریں گے
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کا دورہ نہ کرنے سے متعلق ایک سوال پر شاہ محمود نے کہا کہ بھارت کے طے شدہ دورے کے موقع پر امریکی صدر کے دورہ اسلام آباد کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ اس سے اچھا تاثر نہ جاتا۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ برقرار ہے اور وہ یہ دورہ کریں گے۔
ایک اور سوال پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سی پیک پر امریکی تنقید سے اس راہداری منصوبے پر پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اور وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن اس منصوبے کو کھلے دل سے تسلیم کرے۔