طالبان کی جانب سے خلیجی ریاست قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے سے متعلق خبروں کی تصدیق کے بعد ان قیاس آرائیوں میں شدت آگئی ہے کہ افغانستان کی جنگ کے سیاسی حل کے لیے فریقین کے مابین ہونے والی گفتگو کس حد تک کامیاب رہے گی۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر ایک بیان میں طالبان قیادت نے قطر میں اپنا دفتر کھولنے سے متعلق ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کی تصدیق کی تھی۔
تاہم تجزیہ کاروں کی اکثریت طالبان کے سیاسی دفتر کی موجودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
امریکی تھنک ٹینک 'مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ' سے وابستہ مارون وین بام کا کہنا ہے کہ امریکہ نہ صرف طالبان کے ساتھ سیاسی دفتر کھولنے کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے بلکہ اس کی جانب سے افغان صدر حامد کرزئی کو بھی اس پیش رفت پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکہ نے 2014ء تک افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا ہدف طے کر رکھا ہے تاہم اس حکمتِ عملی کی بنیاد یہ گمان ہے کہ تب تک افغان افواج اور پولیس داخلی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوچکی ہوں گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قطر میں طالبان کے دفتر کی موجودگی سے امریکہ کو طالبان قیادت کے ساتھ ایک غیرجانب دار علاقے میں کھل کر مذاکرات کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
صدر کرزئی نے طالبان کی جانب سے قطر میں دفتر کھولنے کے انتظام پر اتفاق ظاہر کیا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ ان کایہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ دفتر ترکی یا سعودی عرب میں ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔
اس بارے میں بھی کئی خدشات پائے جاتے ہیں کہ طالبان قیادت درحقیقت افغان مسئلے کے کسی ایسے سیاسی حل کی تلاش میں سنجیدہ نہیں جس کے ذریعے شراکتِ اقتدار یا سرکاری وزارتوں کی تقسیم کا کوئی فارمولا وضع کیا جاسکے۔
طالبان نے مذاکرات پر آمادگی کے اپنے بیان میں پڑوسی ملک پاکستان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جو خود کو افغانستان کے مسئلے کا ایک اہم فریق تصور کرتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان ابتدا ہی سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج حائل رہی ہے۔
امریکہ پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کرنے اور انہیں افغانستان میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کی بھارتی کوششوں کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات عائد کرتا آیا ہے۔ حالیہ کچھ ماہ کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات مزید ابتر ہوئے ہیں۔
'یو ایس آرمی وار کالج' کے پروفیسر لیری گڈسن کا کہنا ہے کہ طالبان کرزئی حکومت کو قانونی جواز سے محروم سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں طالبان کی جانب سے اپنا رابطہ دفتر کھولنے کا فیصلہ محض وقت گزاری ہے تاکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا تک کچھ مہلت حاصل کی جائے۔