اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے پاکستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے 61 ہزار سے زائد بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان بچوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں کی 54 خیمہ بستیوں میں پہلے سے موجود 137 اسکولوں میں داخل کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے مختلف اسکولوں میں داخلہ یا اندراج ایک مسلسل عمل ہے۔ مگر اس سال کوشش کی جا رہی ہے کہ اندراج میں اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مختلف خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر والدین کے ساتھ رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں۔
قیصر آفریدی نے کہا کہ افغان مہاجرین کے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے میں مشکلات بہت زیادہ ہیں، مگر ایسے بچوں کے والدین کو قائل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ماضیٔ قریب میں افغان جنگ کے دوران افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کی 96 فی صد آبادی کیمپوں میں رہائش پذیر تھی مگر اب رجسٹرڈ افغان خاندانوں کی 32 فی صد ان 54 خیمہ بستیوں یا کیمپوں جب کہ 68 فی صد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
پشاور میں رہائش پذیر اور مقامی نجی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم افغان باشندے اظہار اللہ نے اقوامِ متحدہ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی ابادی بہت زیادہ ہے۔ لہذٰا اندراج میں اضافے کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ ہے جب کہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں رہائش پذیر افغان باشندوں کی تعداد 24 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہائش پذیر افغان خاندانوں کے پانچ لاکھ بچے ہیں جن میں سے صرف 20 فی صد اسکول جاتے ہیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں کی 54 خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر افغان بچوں کے لیے 146 اسکول موجود ہیں جن میں سے 103 خیبر پختونخوا، 35 بلوچستان اور آٹھ پنجاب میں قائم ہیں، جب کہ ان تمام اسکولوں میں داخل یا زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد 56 ہزار ہے۔
رپورٹ کے مطابق 20 فی صد افغان بچے پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ ان اداروں میں اقوامِ متحدہ کے تعاون سے چلنے والے اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی ادارے دونوں شامل ہیں۔
پشاور میں ایک غیر سرکاری ادارے سے منسلک شکیل وحید اللہ خان نے بھی اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کم از کم اسکولوں میں داخل کیے جانے والے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ جنگ سے متاثرہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے مواقع اور سہولیات فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے۔
گزشتہ چار دہائیوں سے روسی افواج کی مداخلت، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغان متحارب گروہوں کی آپس کی محاذ آرائیوں کے نتیجے میں افغانستان میں تعلیمی نظام درہم برہم ہوا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوئے ہیں۔