اوباما انتظامیہ آئندہ ماہ افغانستان میں اپنی حکمت عملی کا سالانہ جائزہ لینے والی ہے جس کے ابتدائی کام کا آغازہو چکاہے۔کئی امریکی ماہرین جائزے کے اس عمل کے نتیجے میں امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کر رہے۔ تاہم بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کے ٕمفادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کوئی متفقہ پالیسی تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دونوں فریق اس مسئلے پر اپنے اختلافات دور کریں۔
امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے گزشتہ مارچ میں افغانستان کے بارے میں جائزےکے نتیجے میں افغانستان میں فوج کی تعداد میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ خطے میں صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین آئندہ ماہ ہونے والے ریویو کے نتیجے میں افغان پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتے۔ یہ نظرثانی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت افغانستان میں مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی غرض سے طالبان کے کچھ گروہوں کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔حال ہی میں واشنگٹن کے ایک اہم تھنک ٹینک نیو امریکہ فاؤنڈیشن میں پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں ایک مذاکرےکے دوران پاکستان کے سینیئر صحافی امتیاز گل نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال کے تناظر میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اختلافات کو دور کرنا ہوگا۔
امتیاز گل کہتے ہیں کہ پچھلے ماہ واشنگٹن میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سٹرٹیجک ڈائیلاگ سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ نے کہا تھا کہ اس ڈائیلاگ سے انہیں تمام اہم ایشوز پر ایک دوسرے کا موقف سمجھنے کا موقع ملا تھا ۔ مگرماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو قبائلی علاقوں میں متحرک حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لئے امریکہ کادباؤ قابل قبول نہیں۔گزشتہ ایک سال کے دوران یہاں واشنگٹن میں پالیسی ساز اداروں اور تھنک ٹینکس میں افغانستان میں امریکی حکمت عملی کی کامیابی کے لئے حقانی نیٹ ورک پر کافی توجہ رہی ہے اور اس کے خلاف آپریشن کو ناگزیر قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ امتیاز گل کا کہناہے کہ امریکی افغانستان میں اپنے مقاصد کے حوالے سے ابہام کا شکار ہیں اور انہیں یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا اصل دشمن کون ہے۔
مقاصد کچھ بھی ہوں ۔ یہ بات طے ہے کہ صدر اوباما سن 2011ءمیں افواج واپس بلانے کا عمل شروع کرناچاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی حمایت کر رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ہر گز یہ نہیں چاہے گا کہ جب وہ افغانستان سے نکلے تووہاں طالبان اقتدار میں آ جائیں۔واشنگٹن میں امریکی نیشنل سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے امور کے ماہرجیمز کیتھ فیلڈکا کہنا ہے کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ افغانستان چھوڑنے سے پہلے وہاں پر حکومتی ادارے اور سیکیورٹی فورسز اتنے مضبوط ہوں کہ ان میں ایسے عناصر سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔
اتحادی افواج منظم افغان سیکیورٹی فورسز کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اسی لئے وہ اس وقت سیکیورٹی فورسز اور پولیس کی تربیت پر بھر پور توجہ دے رہی ہیں۔