طالبان نے اوباما انتظامیہ کی افغان حکمت عملی کے سالانہ جائزے کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکہ افغانستان میں فوجی اور انتظامی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے کہا ہے کہ نو سال سے جاری جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ بین الاقوامی افواج کی تعداد میں بتدریج اضافے سے صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔
صدر براک اوباما کی طرف سے گذشتہ سال پیش کی گئی حکمت عملی کو ’ناکام‘قرار دیتے ہوئے بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملک میں بدعنوانی، عدم تحفظ اور شہریوں کی ہلاکت کی وجہ بھی یہی حکمت عملی ہے۔
”صدر اوباما پیش رفت کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ بات سب پر عیاں ہے کہ حقیقت ان کے بیانات کے برعکس ہے۔“
صدر اوباما نے جمعرات کو افغان پالیسی کا سالانہ جائزہ پیش کیا تھا جس کے مطابق ناصرف افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان کا زور توڑ دیا گیا ہے بلکہ پاکستان میں رہ کر امریکی فوج کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والے القاعدہ کے رہنماؤں کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔
تاہم جائزے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مزید پیش رفت آسان نہیں ہوگی اور حتمی کامیابی کا انحصار پاکستان کی طرف سے اپنی حدود میں موجود القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کے خاتمے پر ہے۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کو رواں سال سب سے زیادہ جانی نقصانات کا سامنا ہے اور تاحال لگ بھگ 480 امریکیوں سمیت 670 سے زائد غیر ملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جمعہ کے روز بھی افغانستان کے جنوبی اور مشرقی حصے میں شدت پسندوں کے دو مختلف حملوں میں نیٹو کے دو فوجی مارے گئے۔
اُدھر امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین ایڈمیرل مائک ملن نے جمعہ کو دارالحکومت کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر قائم طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام افغان جنگ میں پیش رفت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
تاہم اُنھوں نے پاکستان کی طرف سے طالبان کے خلاف اب تک کی گئی کارروائیوں کی تعریف بھی کی۔
اس سے قبل امریکی اور نیٹو فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر امریکی جنرل ڈیوڈ ُپٹریاس نے بھی انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کے تعاون کو سراہا تھا ۔