تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستا ن کی صورت حال غیر یقینی ہے اور ملک کے اہم شہروں میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ لڑائی میں ملوث مختلف فریقین رعایت کے حصول کی خاطر اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اُنھوں نےخیال ظاہر کیا ہے کہ آئندہ دِنوں میں حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے، کیونکہ، اُن کے بقول، افغان سکیورٹی فورسز سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل نہیں ہوپائیں، بلکہ اُنھیں مزید تربیت کی ضرورت ہے۔
افغان اسمبلی کے سابق اسپیکرمیر ویس یاسینی کا کہنا ہے کہ جب سے افغان حکومت نے کابل میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی ہے، انٹیلی جنس اور سکیورٹی کی ناکامی کے کافی واقعات سامنے آئے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ’اِ ن دِی نیوز‘ میں شرکت کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ نیٹو کے انخلا کے بعد سلامتی کی صورتِٕ حال میں ابتری آنے کا خدشہ ہے۔وہ اتوار کو کابل میں ہونے والے خودکش کام بم دھماکے کے تناظر میں گفتگو کر رہے تھے۔
میر ویس یاسینی نے کہا کہ طالبان، جِن کے سرحد کے دونوں اطراف ٹھکانے ہیں، اُنھوں نے اپنے حربے بدلے ہیں اور اب باقاعدہ اہداف کا تعین کرکے حملے کرتے ہیں۔اُن کے خیال میں افغان حکومت اورغیر ملکی افواج کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ اس وقت کرزئی حکومت کی سکیورٹی فورسز ، خاص طور پر افغان سکیورٹی فورسز کی اتنی تربیت نہیں ہے کہ حالات کو سنبھال سکیں۔
اُن کے خیال میں جیسے جیسے نیٹو افواج کا انخلا ہوگا، طالبان، حقانی یا دوسرے گروپ زور پکڑیں گے اور یہ عین ممکن ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوجائے۔
جنرل طلعت مسعود کے مطابق، آج کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اپنی کارروائی کو اونچی سطح پر لے جارہے ہیں۔۔۔ایسی صورتِ حال پیدا کردیں جِس میں کافی علاقے پر قابض ہوجائیں۔اُن کے الفاظ میں: ’معاملات کافی منفی رُخ کی طرف جارہے ہیں۔‘
تجزیہ کار، ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دو پارٹیاں نہیں، کم از کم پانچ فریق ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ’کون کس کو کیا پیغام دے رہا ہے، یہ تو تفصیل کی بات ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں کے دوران لگتا ہے کہ طالبان اپنا دباؤ بڑھائیں گے۔ لیکن، ابھی یہ نہیں معلوم آیا اُن کو رعایتیں ملیں گی یا نہیں؟ افغانستان کا چیس بورڈ اتنا پیچیدہ ہے کہ کسی کے پاس واضح راستا نہیں ہے‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: