’یو ایس اے ٹوڈے‘ کی افغانستان کے بارے میں یہ رائے ہے کہ جنگ کی تھکاوٹ کے پسِ منظر میں اُس ملک سے جلد انخلا کرنے میں خطرے مضمر ہیں۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی اِس جنگ کے مرکزی مخمصے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے۔
روایتی انداز میں امریکہ کی فتح ممکن نہیں ہے ۔ افغانستان سے واپسی کی جو بھی شکل ہوگی، یہ یقینی ہے کہ یہ واپسی بے ترتیب ہوگی۔
اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ امریکہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالے بنا وہاں سے اُٹھ کر واپس نہیں آسکتا۔ لہٰذا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کوئی بھی خوش نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنگ اور اِبہام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، جِس کی وجہ سے صدر اوباما کی پوزیشن بہت مشکل ہے جویہ دعویٰ ضرور کرسکتے ہیں کہ اُن کی 18ماہ کی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہوئی ہے۔اسامہ بن لادن ہلاک ہوگیا ہے۔ اِسی طرح القاعدہ کے بہت سے لیڈر بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 30000فوجیوں کے اضافے سے طالبان کو اُن علاقوں سے ماربھگا یا گیا ہے جہاں پہلے اُن کا غلبہ تھا۔
افغان فوجیوں کی تربیت میں تیزی آئی ہے، افغان معیشت میں بہتری آئی ہے اور حکومت پہلے سے زیادہ مقبول ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے وہ اوباما کی حکمتِ عملی کا سب سے زیادہ کامیاب پہلو ہے جس کا نکتہ ٴ عروج اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہے۔ القاعدہ کے لیڈر نہ صرف بتدریج ہلاک کیےجا رہے ہیں بلکہ اسامہ بن لادن کی کمین گاہ سے برآمد ہونے والی دستاویزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنظیم مایوسی کا شکار ہے اور اُس میں اُنھیں ایک دوسرے کو نامہ و پیام بھیجنے میں کس قدر دشواری ہورہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ بہتری اِسی میں ہے کہ افغانستان سے انخلا بتدریج کیا جائے، بشرطیکہ افغانستان کے مُتلوِّن مزاج حکومت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔
گرین کارڈ لاٹری
امریکی محکمہ خارجہ کے خلاف ایک وفاقی عدالت میں دعویٰ دائر کیا گیا ہے، جِس میں ہزاروں غیر ملکیوں نے شکایت کی ہے کہ حکومت کے کمپیوٹر کی غلطی سے اُن کے امریکی شہریت حاصل کرنے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں اور اُنھوں نے اپنا یہ حق بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے مطابق سمندر پار ملکوں سے ڈیڑھ کروڑ افراد نے ویزا لاٹری کے لیے درخواست دی تھی جِن میں سے 50000افراد کو ایک ’ڈرا‘ کے ذریعے گرین کارڈ کے لیے منتخب کرنا تھا۔ مئی میں محکمہٴ خارجہ نے 22000افراد کو اطلاع بھیجی کہ اُنھیں گرین کارڈ لینے کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے لیکن اِس کے فوراً بعد اُنھیں یہ اطلاع بھیجی گئی کہ کمپیوٹر کی ایک غلطی کی وجہ سے ڈرا دوبارہ ہوگا اور اُن کا نام نئے سرے سے اِس ڈرا میں ڈال دیا جائے گا۔
اب اِس کے خلاف جِن افراد نے مقدمہ دائر کررکھا ہے اُن کا تعلق 20سے زیادہ ملکوں سے ہے اور اُن کا مؤقف یہ ہے کہ اُن کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی ہے۔ اِس لیے اُن کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے۔ امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ اِن لوگوں کی درخواستوں کی نظرِ ثانی ہو رہی ہے جس میں چند ہفتے لگیں گے۔
گرین کارڈ کی لاٹری کا رواج 1990ء میں پڑا تھا اور اِس میں تقریباً دنیا کی ہر جگہ سے لوگ شرکت کرسکتے ہیں ماسوائے اُن ملکوں کے جِن کے باشندوں کی بھاری تعداد امریکہ میں پہلے ہی سے موجود ہے، جِن ملکوں میں میکسیکو، چین، ہندوستان اور فلپینز شامل ہیں۔
لاٹری میں شرکت کے لیے کسی خاص ہُنر کی ضرورت نہیں ہے، صرف ہائی اسکول کا ڈپلوما کافی ہے۔ لاٹری جیتنے والے بالآخر امریکی شہریت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
’گَن کنٹرول‘ پر ایک اداریے میں اخبار ’اِریزونا ڈیلی اسٹار‘ کہتا ہے کہ امریکیوں کو ہتھیار رکھنے کا حق عزیز ہے اور اِس حق پر کوئی قدغن لگائے تو وہ اُس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ مؤقف جائز ہے جس کی وہ حمایت کرتا ہے۔ لیکن، اِس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اِن قوانین میں اصلاح کی ضرورت بھی واضح ہے اور امریکیوں کو جرائم پیشہ افراد ، نشہ کرنے والوں اور خطرناک لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ 2012ء میں ہونے والے انتخابات کے پیشِ نظر کانگریس میں اِس سلسلے میں قدم اُٹھانے کے لیےکوئی تیار نہیں ہے۔
اخبار نے صدر اوباما کو اِس میں پہل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں اِس ایشو پر لوگوں کی قیادت کرنی چاہیئے جیسا کہ اُنھوں نے اپنی سابقہ مہم میں وعدہ کیا تھا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: