بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت پرامن، خوشحال اور متحد افغانستان کے لیے افغان حکام کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
ان خیالات کا اظہار بھارتی وزیرِ خارجہ نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمر سے پیر کو نئی دہلی میں ملاقات کے دوران کیا جو تین روزہ دورے پر بھارت پہنچے تھے۔
ملاقات کے بعد بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ایس جے شنکر نے بات چیت کے دوران افغانستان کو ایک متحد، پرامن، عوامی خواہشات کا احترام کرنے والا اور ایک خوشحال جمہوری ملک بنانے کے بھارت کے دیرینہ عزم کا اعادہ کیا۔
افغان وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ روس کی میزبانی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے چند روز بعد ہو رہا ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد نئی دہلی کے سینئر عہدے داروں کے ساتھ افغان امن عمل، سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون پر تبادلۂ خیال کرنا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے بھارت افغان اسٹرٹیجک شراکت داری کو آگے بڑھانے کے علاوہ باہمی و علاقائی امور، سیکیورٹی تعاون اور امن عمل پر بھی گفتگو کی۔
ایس جے شنکر نے ایک ٹوئٹ میں حنیف اتمر کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہم نے امن عمل پر تفصیل کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا ہے۔
دورے کے دوران محمد حنیف اتمر وزیر اعظم نریندر مودی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے بھی ملاقات کریں گے۔
بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ ایس جے شنکر ایک عرصے سے افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق دونوں ملکوں میں بہت گہرے اور تاریخی رشتے ہیں۔ اس سے قبل افغانستان میں اعلٰی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی نئی دہلی کے دورے پر آچکے ہیں۔
قمر آغا کے بقول بھارت کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور گزشتہ برسوں میں جو جمہوری نظام قائم ہوا ہے وہ برقرار رہے۔ لیکن اسی کے ساتھ بھارت کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ طالبان دوبارہ افغانستان میں خلافت قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ حالاں کہ امریکہ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
ان کے مطابق افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جو مذاکرات چل رہے ہیں ان کی کامیابی کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ امن عمل کی راہ میں اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ خاص طور پر طالبان کا اسلامی طرزِ حکمرانی کے قیام پر اصرار کرنا جس پر بعض افغان دھڑوں اور امریکہ کو بھی تحفظات ہیں۔
قمر آغا نے یہ بھی کہا کہ ابھی امریکہ میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانے اب بھی قائم ہیں۔ اس کی طاقت کم ہونے کے بجائے اور بڑھ رہی ہے۔ لیکن بہر حال طالبان پر امریکہ کا دباؤ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی دباؤ طالبان پر کتنا اثر انداز ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت افغانستان میں امن و استحکام کے سلسلے میں ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ اس نے افغانستان کی مدد اور تعمیر نو میں دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس نے نومبر میں متعدد منصوبوں کے لیے 80 ملین ڈالر کے نئے پیکج کا بھی اعلان کیا تھا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ میں افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے جامع سیز فائر پر زور دیا تھا۔