افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہفتے کو سینکڑوں افراد نے پاکستان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ یہ لوگ مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے حالیہ ہفتوں کے دوران سرحد پار افغانستان میں داغے گئے راکٹوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔
ان حملوں میں افغانستان کے بقول اس کے 36شہری ہلاک ہوئے ۔ مظاہرین پاکستان مخالف نعرے بھی لگاتے رہے۔
رواں ہفتے پیر کو صدر حامد کرزئی نے بھی کابل میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کے دوران ان راکٹ حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کہہ چکے ہیں کہ فوج نے دانستہ طور پر افغان علاقے میں راکٹ نہیں داغے اور ان کے بقول سکیورٹی فورسز پاکستان پر سرحد پار سے حملے کرنے والے شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔”اگر ان عسکریت پسندوں پر واپس جاتے ہوئے گولہ باری کرتے ہوئے حادثاتی طور پر کچھ گولے افغان سرحد کے اس پار گرے ہیں تو ایسا ممکن ہے۔لیکن سرحد پار دانستہ طور پر کسی قسم کی فائرنگ نہیں کی گئی ہے۔“
جنرل عباس نے رواں ہفتے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان کی جانب سے دراندازی کرنے والے سینکڑوں عسکریت پسندوں کے حملوں میں سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔”افغانستان کی جانب سے پچھلے ایک ماہ کے اندر پانچ بڑے حملے ہوئے جن میں دو سو سے تین سو جنگجوسرحد عبور کرکے ہمارے علاقے میں آئے اور سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا۔ اس میں ہمارے 55کے قریب پیرا ملٹری، فرنٹیئر کور اور لیویز کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی جب کہ 70سے زائد اہلکار زخمی بھی ہوئے۔“
دونوں ملکوں کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے لیے موثر کارروائیوں کے فقدان کے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں جس سے فریقین میں تعلقات کشیدگی کا شکار رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1