رسائی کے لنکس

افغانستان: طالبان حکومت کا 'تاپی' گیس پائپ لائن مںصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

  • طالبان حکومت بدھ سے افغانستان میں تاپی گیس پائپ لائن پر کام کا آغاز کر رہی ہے۔
  • ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا ہے۔
  • ترکمانستان نے گیس پائپ لائن پر اپنے حصے کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا ہے۔
  • تاپی گیس پائپ لائن کی لاگت تقریباً 10 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
  • ماہرین کے مطابق پائپ لائن کے لیے مطلوبہ سرمایہ کاری دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ مزید کئی برس فعال نہیں ہو سکے گی۔

ویب ڈیسک__افغانستان کی طالبان حکومت نے کہا کہ وہ جنوبی ایشیا میں گیس کی فراہمی کے بڑے منصوبے ’تاپی‘ پر کام کا آغاز کر رہی ہے۔

یہ اعلان بدھ کو مذکورہ پائپ لائن کی ترکمانستان کے حصے کی تکمیل کے موقع پر سامنے آیا ہے۔ تقریباً 10 ارب ڈالر مالیت کا یہ منصوبہ تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا جسے ’تاپی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ مںصوبہ افغانستان میں پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے التوا کا شکار رہا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو سرکاری ٹیلی وژن کو دیے گئے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ آج سے افغانستان کی سرزمین پر اس منصوبے کے لیے کام شروع کیا جائے گا۔

ترکمانستان میں اسلم چشمہ میں منعقد ہونے والی بڑی تقریب میں افغان طالبان کی حکومت کے وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند سمیت دونوں جانب کے رہنماؤں نے اس منصوبے کی اہمیت پر زور دیا۔

ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف نے تقریب کے لیے جاری ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ یہ مںصوبہ نہ صرف اس میں شامل ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ یہ پورے خطے کے لیے مفید ہے۔

تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ جس کے لیے تمام وسائل کا بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔ آئندہ ایک اور دہائی کے لیے بھی فعال نہیں ہو سکے گا۔

اس موقع پر افغانستان کے سرحدی صوبے ہرات میں عام تعطیل دی گئی تھی اور جگہ جگہ اس پراجیکٹ کے پوسٹرز لگائے تھے۔

اس پائپ لائن کے ذریعے جنوب مغربی ترکمانستان کی گلکنش گیس فیلڈ سے ہر سال 33 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس متنقل کی جائے گی۔

پائپ لائن کا 1800 کلومیٹر حصہ افغانستان میں ہے جو ہرات اور قندھار سے گزرتے ہوئے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں داخل ہو گی اور وہاں سے بھارتی پنجاب کے علاقے فاضلکا پہنچ کر ختم ہو گی۔

افغان میڈیا کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں اس پائپ لائن سے 42، 42 فی صد اور کابل 16 فی صد گیس خریدیں گے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو ہر سال اس گیس پائپ لائن کی ٹرانزٹ فیس کی مد میں 50 کروڑ ڈالر بھاری معاوضہ ملے گا۔

ترکمانستان میں پائپ لائن پر 2015 میں کام شروع ہوا تھا اور ابتدائی طور پر 2018 میں افغانستان میں پائپ لائن کی تعمیر آگے بڑھنا تھی۔ لیکن یہ مسلسل تعطل کا شکار رہی۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات اور ایل این جی گیس کی مارکیٹ تک آسان رسائی کے باعث اس منصوبے میں بھارت کی دل چسپی پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد 2021 میں اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت کے لیے اہم ترین منصوبہ ہے۔

پائپ لائن طالبان حکومت کو، جسے تاحال کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے، وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان اہم اسٹریٹجک کردار دیتی ہے اور خطے میں توانائی کی قلت کی وجہ سے یہ کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان مغربی ممالک کی جانب سے عائد کڑی پابندیوں کے باوجود بالخصوص توانائی، کان کنی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کئی بڑے منصوبے از سرِ نو شروع کر رہی ہے۔

رواں برس جولائی کے اواخر میں افغانستان اور چین نے کابل کے نزدیک تانبے کے دوسرے بڑے ذخیرے سے کان کنی کا باقاعدہ کیا ہے جس پر 2008 سے کام رکا ہوا تھا۔

اس خبر کی معلومات 'اے ایف پی' سے لی گئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG