امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ بات چیت کے لیے غیر اعلانیہ دورے پر ہفتہ کو کابل پہنچے ہیں۔ یہ ان کا افغانستان کا بارہواں اور آخری سرکاری دورہ ہے کیونکہ رواں ماہ کے آخر میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔
افغانستان میں قیام کے دوران وہ بین الاقوامی افواج کے سربراہ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس، امریکی سفیر اور امریکی فوجیوں سے ملاقات کریں گے۔ صدر کرزئی کے ساتھ رابرٹ گیٹس کی ملاقات ہفتہ کی شب متوقع ہے۔
کابل پہنچے سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا کہ طالبان پر مسلسل فوجی دباؤ سے سیاسی مفاہمت کے لیے بات چیت کا امکان بڑھے گا۔ لیکن امریکی وزیر دفاع نے افغانستان میں امریکہ کے مشن میں تبدیلی کے امکان کے بارے میں سوال کا غیر واضع جواب دیا اور اعتراف کیا کہ امریکی عوام جنگ سے بے زار ہو گئے ہیں۔
”آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ امریکہ میں لوگوں کی جنگ سے بیزاری میں اضافہ اور کانگریس کی طرف سے حمایت میں کمی آرہی ہے۔ اس لیے میر اخیال ہے کہ یہ وہ تمام عوامل ہیں جنہیں صدر (براک اوباما) اور اُن کے مشیروں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ “
تاہم امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ مہنگی قیمت ادا کرنے اور حمایت میں کمی آنے کے باوجود اُن کے خیال میں صدر اوباما نے جنگ کے جو اہداف مقرر کررکھے ہیں اُن کا حصول ناگزیر ہے۔ ” اگر مشن کامیاب ہوتا ہے تو باقی عوامل کی اہمیت ختم ہو جائے گی لیکن ناکامی کی صورت میں ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔“
اس وقت افغانستان میں لگ بھگ ایک لاکھ امریکی فوجی تعینات ہیں اور صدر براک اوباما کے پہلے سے اعلان کردہ منصوبے کے تحت آئندہ ماہ ان فوجیوں کی مرحلہ وار وطن واپسی کا عمل شروع ہونے کی توقع ہے۔
امریکی عہدے دار اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر واپس جارہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ فوجوں کی واپسی کا عمل دراصل سلامتی کی ذمہ داریوں کی قیادت افغانوں کو منتقل کرنے کی طرف پیش قدمی ہے۔
اُن کا موقف ہے کہ ایک مخصوص تعداد میں امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے تاکہ القاعدہ کو اس ملک کو دوبارہ دہشت گردی کی تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا موقع نہ ملے۔
افغانستان اور امریکہ کے درمیان طویل المعیاد اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے لیے ایک معاہدہ بھی زیر غور ہے۔ تاہم امریکی حکام کے بقول اس سمجھوتے کا مقصد ملک میں مستقل امریکی فوجی اڈوں کا حصول نہیں اور نہ ہی امریکہ ایسا چاہتا ہے۔