امریکہ کی جانب سے تین افریقی ملکوں پر امریکہ آمد پر عائد کردہ بندش کے بعد پورے براعظم میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ بات افریقی یونین کی سبک دوش ہونے والی سربراہ نے پیر کے روز کہی ہے، ایسے میں جب درجنوں افریقی رہنماؤں کا سالانہ سربراہ اجلاس جاری ہے۔
افریقہ میں یہ بندش لیبیا، صومالیہ اور سوڈان پر لگائی گئی ہے، جن کی اکثریت مسلمان آبادی پر مشتمل ہے، جن کے پہلے ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات پیچیدہ یا کشیدہ ہیں۔ امریکی حکومت کا لیبیا اور صومالیہ میں کوئی سفارت خانہ نہیں، جس کی وجہ زیادہ تر تحفظ کے معاملے پر تشویش کا عنصر ہے۔
لیکن، پیر کے روز افریقی یونین کے سربراہ اجلاس کے افتتاح کے موقع پر، جس میں درجنوں افریقی رہنما شریک تھے، کمیشن کی خاتون سربراہ، نکوسنانا دلامنی زوما نے کہا کہ بندش سے افریقی ممالک متاثر ہوتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’عالمی سطح پر یہ بات واضح ہے، ہم مشکل دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ اُس ملک میں جہاں کبھی بحر اوقیانوس پار غلام کے طور پر ہمارے لوگوں کی تجارت ہوا کرتی تھی، اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہمارے کچھ ملکوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آمد پر پابندی ہوگی۔ ہم اس کے بارے میں کیا کر پائیں گے؟ بیشک، یہ ہمارے اتحاد اور یکجہتی کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک چیلنج ہے‘‘۔
نوے روز کی یہ پابندی، ایران، عراق، شام اور یمن پر بھی لگائی گئی ہے۔ یہ سات ملک دنیا کی مسلمان آبادی کا تقریباً 12 فی صد بنتا ہے، اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ وہی ممالک ہیں جن کی دہشت گردی کے گڑھ کے طور پر اس سے قبل اوباما انتظامیہ نشاندہی کر چکی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ پابندی، اور مہاجرین کو قبول کرنے پر 120 دِن کی پابندی اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکی اِمی گریشن قوانین اور سلامتی کے ضوابط کا جائزہ نہیں لیا جاتا، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ عام آدمی کے تحفظ کا معاملہ اطمینان بخش ہوگیا ہے۔
صومالیہ کے وزیر خارجہ، عبد السلام عمر نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُن کا ملک امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں پُرامید ہے۔ تشویش پیدا ہونے کا معاملہ ’’قبل از وقت ہوگا‘‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ پابندی پریشان کُن ضرور ہے۔