’’میں جس گلی میں رہتا تھا وہاں اٹھارہ سے بیس احمدی خاندان آباد تھے۔ اب وہاں کوئی بھی نہیں رہتا۔ ان سب کو جماعت احمدیہ نے وہاں سے نکال لیاتھا۔ میں جب نکلا تو اس وقت تک یہ خیال نہیں تھا کہ انہیں یہاں سے منتقل کروایا جائے گا۔ لیکن جب مزید ہلاکتیں ہوئی ہیں تو پھر مختلف علاقوں سے احمدی گئے اور ان خاندانوں کو وہاں سے نکالا گیا۔‘‘
یہ الفاظ ہیں اورنگی ٹاؤن کراچی کے طاہر احمد شاہ کے، جو بقول ان کے خود بھی حملہ آوروں کے نشانے پر تھے اور جان بچانے کی غرض سے اپنا گھر بار چھوڑ کر اس علاقے سے منتقل ہو گئے۔
طاہر احمد شاہ کی کہانی پاکستان میں بہت سے احمدیوں کی کہانی سے مماثلت رکھتی ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب میں مسلم لیگ ق کے ایک مقامی رہنما ملک الیاس اعوان نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ایک خط لکھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ علاقے میں رہنے والے احمدیوں کو ایک گھر میں جمع ہو کر نماز پڑھنے سے روکا جائے اور انہیں ضلع بدر کیا جائے۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل پندرہ اگرچہ تمام شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ملک میں جہاں چاہیں آزادی سے رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں احمدی اس حق سے محروم ہیں۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے پاکستان میں ایسے احمدیوں سے گفتگو کی جنہوں نے اورنگی ٹاؤن کراچی اور پشاور میں مخالفت، ایذا اور ٹارگٹ کلنگ کا سامنا کیا۔
ان احمدیوں کی شناخت اور رہائش کو سکیورٹی کی غرض سے ان کی درخواست پر پوشیدہ رکھا جا رہا ہے اور اس رپورٹ میں ان کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔
کراچی میں فروری 2012 سے لے کر فروری 2014 کے درمیان 17 ایسی ہلاکتیں ہوئیں جن کی وجوہات جماعت احمدیہ کے دعوے کے مطابق مذہبی منافرت تھی۔ علاقہ رہائشیوں کے مطابق جس علاقے میں کبھی 150 کے قریب احمدی خاندان رہائیش پذیر تھے، وہاں اب 40 سے بھی کم خاندان رہ گئے ہیں۔ اکثر خاندان یہ علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔
طاہر شاہ بتاتے ہیں :
’’جولائی 2012 میں اس علاقے کے احمدی جماعت کے صدر کو تھانے بلا کر کہا گیا کہ ایک ہٹ لسٹ بنی ہے، اور اس میں آپ کے لوگوں کا نام ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ انہوں نے یہ ہٹ لسٹ تو کبھی نہ دیکھی، مگر جماعت کے عہدے داروں نے انہیں متنبہ کیا کہ ان کا نام بھی اس فہرست میں موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جولائی میں ہی علاقہ صدر کو ہلاک کر دیا گیا۔ اور پھر علاقے میں یکے بعد دیگرے احمدی افراد کی ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بقول ان کے ان ہلاکتوں میں یہ بات مشترک تھی کہ صبح ملازمت پر جاتے ہوئے ان افراد کو ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ٹارگٹ کلر نزدیک آ کر نام پکارتے اور اس فرد کے اپنا نام پکارے جانے پر غیر ارادی طور پر رکنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور اپنے ٹارگٹ کے اوقات کار اور جن راستوں سے وہ گزرتے تھے ان کی مکمل معلومات رکھتے تھے۔ بقول ان کے ’’پے در پے ہلاکتوں کے بعد علاقے کے احمدیوں میں بہت خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔‘‘
ان کے بقول پہلی ہلاکت کے بعد علاقے میں احمدی مخالف وال چاکنگ، گھروں میں دھمکی آمیز پرچیوں کی آمد اور راہ چلتے آوازے کسنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں بھی پہلے احمدیوں کو علاقہ بدر کرنے کے مطالبات کئے گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بچے والدین کے ہاں بھیجے اور وہ جب بھی گھر سے نکلتے تو اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر نکلتے کہ شاید خاتون کا لحاظ کر دیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران انہیں شک ہوچکا تھا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ مگر وہ بتاتے ہیں کہ گلی میں جب دو موقعوں پر راہ چلتے ان کا نام پکارا گیا تو انہیں یقین ہوگیا کہ اگلا ٹارگٹ ڈھونڈ لیا گیا ہے اور اس کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلے تو ان کے پاس صرف ضروری کاغذات تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس دوران مقامی پولیس کا کیا کردار رہا تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس دوران پولیس کی جانب سے کوئی مدد نہ ملی۔ بقول ان کے ’’ہمیں کسی بھی موقعے پر ایسا محسوس نہ ہوا کہ ہمیں کوئی ریاستی تحفظ حاصل ہے۔‘‘
طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ علاقے میں احمدیوں کی بے بسی کا عالم یہ تھا کہ 8 فروری 2014 کے روز جب ایک احمدی رضی الدین رضی کو ان کی اہلیہ کے سامنے گولیاں ماری گئیں تو وہ رضی الدین کا خون میں نہلایا ہوا سر اپنی گود میں رکھ کر ارد گرد کھڑے لوگوں سے مدد مانگتی رہیں کہ انہیں کوئی ہسپتال لے جائے مگر ان کی مدد کو کوئی بھی نہ آیا۔
سماجی مقاطعے کی ایسی ہی مثالیں ملک کے دوسرے کونے پشاور میں نظر آتی ہیں۔
اگست 2020 سے نومبر 2021 کے دوران پشاور میں یکے بعد دیگرے 5 احمدیوں کو قتل کیا گیا۔ رشید احمد بتاتے ہیں کہ ان کے والد کو جب قتل کیا گیا تو اس سے پہلے سماجی مقاطعے (بائیکاٹ) کا حربہ آزمایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پشاور میں ان کے والد کا عشروں سے کاروبار تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے کاروبار میں بھی جو لوگ عشروں سے کام کرتے آ رہے تھے انہیں کہا گیا کہ یہ قادیانی ہیں، ان کے ساتھ کام نہ کرو۔ علاقہ مکینوں سے جو باتیں انہیں سننے میں آئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے کاروبار کے ذریعے جماعت احمدیہ کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کے اسٹاف کے ہٹوانے کے بعد پوری مارکیٹ میں ان کا سماجی مقاطعہ کیا گیا حتی کہ کمپنیوں کے سیلزمین بھی ان کا مقاطعہ کرنے لگے تھے۔ بقول ان کے:
’’ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ ہمارا کاروبار ختم کر دیا جائے۔ یہ مخالفت ایک برس چلی، ہم نے اس دوران قریبی دوستوں کی نظروں میں دشمنی دیکھی، وہ بہت خوف کا وقت تھا۔ مخالفت ایسی تھی کہ جیسے ہم کوئی خلائی مخلوق ہوں۔ پھر ایک برس بعد یہ واقعہ ہوا۔‘‘
وہ بتاتے ہیں ’’اس دن معمول کی طرح میں کاروبار پر گیا اور ہم نے نارمل طریقے سے دکان بند کی۔ میں دکان بند کر کے آگے نکل گیا۔ پیچھے ابو آ رہے تھے، انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
’’جس دن میرے والد کی ہلاکت کا واقعہ ہوا، ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے آئے۔ میں اس کے بعد اپنے گھر کبھی نہیں گیا، مجھے نہیں معلوم کہ میرا گھر کس حال میں ہے۔ ہمیں تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک رات میں ہی ہمیں کسی نے سڑک پر بٹھا دیا ہو۔‘‘
’’ہم نہیں چاہتے کہ آپ قادیانی ہمارے بیچ رہیں۔‘‘
پشاور سے ہی تعلق رکھنے والے سجاد احمد کے والد کو بھی ان کے کاروبار کی جگہ پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ باقاعدہ ایک پیج پر نام لکھے ہوئے آتے کہ فلاں ولد فلاں، انہیں کہا جاتا کہ آپ گھر چھوڑ دیں، دکان بند کردیں ورنہ نتائج کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پولیس کے کچھ افسر بتاتے تھے کہ حملہ آوروں کا مطالبہ ہے کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ قادیانی ہمارے بیچ رہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات کے بعد پشاور سے پچاس سے ساٹھ فیصد احمدی گھرانے منتقل ہوچکے ہیں۔ بقول ان کے ’’جن کے پاس بچت تھی وہ باہر چلے گئے۔ کچھ اپنے آبائی گھروں، کاروباروں، ملازمتوں اور سکولوں کو چھوڑ کر گئے۔ کسی کے سیمسٹر اور تعلیم پر بہت فرق پڑا۔ لوگوں نے اونے پونے اپنی جائیدادیں بیچیں، لوگ اس سوچ میں پڑ گئے تھے کہ اب اگلی باری کس کی ہوگی۔‘‘
ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ کے پریس سیکشن انچارج عامر محمود کہتے ہیں کہ ہمیں جو طریقہ واردات سمجھ آیا ہے وہ یہی ہے کہ اگر کسی جگہ پر کوئی احمدی ہے تو وہاں مذہبی انتہاپسند ان کے خلاف مہم شروع کرتے ہیں۔ دکانداروں کو کہتے ہیں کہ ان کا بائیکاٹ شروع کریں۔ سودا سلف نہ دیں، ان کے بچوں کو سکولوں میں داخلہ نہ دیں۔ ان کے گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے گھروں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جو احمدی کو قتل کرے گا وہ جنت کا حق دار ہوگا۔‘‘
’’حکومت، جس کا کام ہے کہ وہ ان کارروائیوں کو روکے، وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ مہم احمدیوں کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں جاری رہتی ہے لیکن ہم نے نہیں دیکھا کہ کوئی موثر اقدام حکومت نے لیا ہو۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اورنگی ٹاؤن کراچی کے واقعات ہوں، پشاور کے واقعات ہوں یا پنجاب میں پیش آنے واقعات، جہاں ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، ایک کے بعد ایک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آتا ہے تو ایسے میں احمدیوں کے لیے یہی چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے علاقہ چھوڑ جائیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ پاکستان کا آئین شہریوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن پاکستان کی شناخت اس قدر مذہب سے جڑی ہے کہ حکمرانوں کے پاس یہ گنجائش ہے کہ وہ اس کا غلط استعمال کریں۔ ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان سے منسلک زہرہ یوسف نےجو ادارے کی سابق چئیرپرسن بھی رہ چکی ہیں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’آئین مساوی حقوق تو دیتا ہے لیکن جب معاشرے میں اس قدر نفرت پھیلائی جائے گی تو اس سے سب سے کمزور طبقہ متاثر ہوگا۔‘‘ ان کے مطابق احمدیوں کی حالت ملک کی دیگر برادریوں سے بھی بدتر ہے۔
وہ اس سلسلے میں ریاست کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ بقول ان کے ’’کچھ جگہوں پر تو ہمارے پاس رپورٹس آتی ہیں کہ پولیس شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘‘
قبل ازیں خوشاب میں احمدیوں کے علاقہ بدری کے مطالبے والے خط کی مذمت کرتے ہوئے ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ’’کسی صاحب اختیار کو یہ حکم صادر کرنے کا حق نہیں ہے کہ کوئی شہری کہاں رہائش اختیار کرے۔‘‘
کمشن کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ احمدیوں کے زندہ رہنے، رہائش، اور مذہبی حقوق کی حفاظت کرے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہئے۔
وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کے معاملے میں ہمارے ملک میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ 7 ستمبر 1974 کے روز پاکستان کی پارلیمان سے منظور ہونے والی دوسری آئینی ترمیم کی جانب، جس میں آئین میں مسلمان کی تعریف کی گئی ہے، اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر احمدی کمیونٹی خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کر لے تو بقول قبلہ ایاز کے اس سے احمدیوں کے لیے بھی مسائل کم ہوں گے۔
احمدیوں کو ایذا پہنچانے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ ’’جہاں تک پشاور کے حوالے سے بات ہے تو کچھ تو میری معلومات بھی ہیں۔ ان میں جو کچھ مسئلے پیدا ہوئے ان میں کچھ ذاتی قسم کے بھی تھے، وہ مذہبی حوالے سے نہیں تھے۔ بلکہ جائیداد کے حوالے سے تھے، اس لیے کچھ اکا دکا واقعات ہوئے۔‘‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ریاست کی بہرحال آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کا تحفظ کرے، بقول ان کے ’’ اگر ایسی صورت حال ہے بھی تو ریاست کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ احمدیوں کی ایذا رسانی یا پرسیکیوشن کی جو رپورٹس ہیں وہ بہت حد تک مبالغے پر مبنی ہیں۔ بقول ان کے ’’میرا اندازہ ہے کہ اکا دکا واقعات تو یقیناً ہوں گے لیکن یہ رپورٹس مبالغہ آمیز ہیں۔‘‘
رواں سال اپریل میں بین الاقوامی مذہبی آزادیوں کا جائزہ لینے والے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے سال 2022 کے لیے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کے اندر سال 2021ء میں بھی مذہبی آزادیوں کا گراف تنزلی کی جانب گامزن رہا۔
رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے اہانت مذہب، احمدیہ مخالف قوانین کو ایک نظام کے تحت نافذ رکھا اور مذہبی اقلیتوں کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جیسے غیر ریاستی عناصر سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی۔
مذہبی آزادیوں کی رپورٹ کے مطابق احمدیہ جماعت کے لوگوں کو ملک کے اندر اپنے عقائد کے سبب بدستور سرکاری سطح پر اور معاشرے کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ ’’جب آپ اس مسئلے کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا وسیع تر حل ہو اور وہ یہی ہے کہ بالاتفاق ایک آئینی ترمیم ہوئی ہے اور اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کیا جائے۔ ایسے میں ہم پرامن بھائی چارے کی جانب جا سکتے ہیں۔‘‘
وائس آف امریک نے جب یہ سوال سینئر صحافی وجاہت مسعود کے سامنے رکھا کہ کیا کسی کمیونٹی کے آئین کی کسی شق کو قبول نہ کرنے سے ان کے بنیادی انسانی حقوق معطل ہوسکتے ہیں تو انہوں نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ آئینی حقوق کے باب میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے آئین کی تمام دفعات سے اتفاق رکھنا لازمی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ بذات خود آئین کی کئی دفعات سے اتفاق نہیں رکھتے، لیکن یہ کہ ’’ایک شہری آئین کی کسی ترمیم کی مخالفت ایسے ہی کرتا ہے کہ اس میں تبدیلی لائی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل 239 پارلیمان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ احمدیوں کو دوسرے شہریوں کی طرح ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آئین کی کسی بھی شق سے اختلاف رکھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب ملک کے انسانی حقوق کے وفاقی وزیر ریاض پیر زادہ نے رواں ماہ کی دو تاریخ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں احمدیوں کو چھریوں کے وار کرکے قتل کیا جارہا ہے اور ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ ہم اپنے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالسلام کا نام تک نہیں لے سکتے۔
ریاض پیرزادہ سے وائس آف امریکہ نے اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا اور انہیں سوالات بذریعہ واٹس ایپ بھیجے گئے لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔
ریاض حسین پیر زادہ نے حال ہی میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے دوران تمام میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور جیل اصلاحات کے معاملے کو اجاگر کرنے پر زور دیا ہے۔
گزشتہ سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اس وقت کی حکومت کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ان کی حکومت آئین میں دیئے گئے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق اور خاص طور پر محروم طبقات کے تحفط کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
رشید احمد حال ہی میں ایک نئے شہر میں قسمت آزمانے آئے ہیں، وہ کہتے ہیں انہیں کرکٹ کا بہت شوق ہے، لیکن انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی بھی گھر کے قریب کرکٹ کھیلنے نہیں جاتے کہ کوئی انہیں پہچان نہ لے۔ بقول ان کے ’’انہیں ہلکا سا بھی پتہ چل جائے کہ آپ احمدی ہو تو یہ ہمیں تسلیم ہی نہیں کرتے۔‘‘