امریکہ کے ممتاز ڈرامہ نگار، ادیب اور فلمساز لیری کریمر بدھ کو انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 84 سال تھی۔ وہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کے رہنما تھے اور ان کی غصیلی آواز اور برہم قلم نے اس وقت ایڈز کے بارے میں شعور اجاگر کیا جب دنیا اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔
کریمر کی سوانح لکھنے والے بل گولڈسٹین نے نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی موت کی تصدیق کی۔ کریمر کے شریک حیات ڈیوڈ ویبسٹر نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کا انتقال نمونیا سے ہوا۔
سر ایلٹن جون نے ایک بیان میں کہا کہ ہم ایک عظیم شخص سے محروم ہوگئے ہیں جو ایک جنگجو کی طرح ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کھڑا ہوا۔ ان کا غصہ اس وقت کام آیا جب ہم جنس پرستوں کی ایڈز سے ہلاکتوں کو امریکی حکومت نظرانداز کررہی تھی۔
کریمر کا ایک محبوب دوست 1984 میں ایڈز کی وجہ سے ہلاک ہوگیا تھا، جبکہ وہ خود بھی ایچ آئی وی میں مبتلا ہوئے۔ وہ ہیپاٹائٹس کا بھی شکار ہوئے اور انھیں 2001 میں جگر کا ٹرانسپلانٹ کروانا پڑا، کیونکہ وائرس نے ان کا جگر ناکارہ بنادیا تھا۔
ڈی ایچ لارنس کے ناول 'ویمن ان لو' پر بنائی گئی فلم کے لیے اسکرین پلے لکھنے پر لیری کریمر کو آسکر کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا ڈرامہ 'دا ڈیسٹینی آف می' 1993 میں پلٹزر پرائز کا فائنلسٹ تھا۔ ایک ڈرامے 'دا نارمل ہارٹ' کو تحریر کرنے پر انھیں ٹونی ایوارڈ بھی ملا اور ایچ بی او نے اس پر سیریز بنائی تو ایمی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔
ان کامیابیوں سے قطع نظر لیری کریمر کی وجہ شہرت ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد ہی رہی۔ انھوں نے امریکی معاشرے میں ہم جنس پرستوں کی قبولیت، انھیں شہری حقوق اور برابری کا مقام دلوانے اور علاج یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی کوششیں کیں۔
1981 میں جب ایڈز کو اس کا نام تک نہیں ملا تھا اور صرف چند درجن مریضوں کی تشخیص ہوئی تھی، کریمر نے نیویارک میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر 'گے مینز ہیلتھ کرائسس' کے نام سے تنظیم بنائی۔ یہ ملک میں ایڈز سے نمٹنے کے لیے اولین تنظیموں میں سے ایک تھی۔
بعد میں وہ اس تنظیم سے علیحدہ ہوگئے اور ایکٹ اپ کے نام سے ایک اور تنظیم بنالی۔ اس تنظیم نے سول نافرمانی کے مظاہرے کیے جن کی وجہ سے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن پر دباؤ پڑا کہ ایڈز کے لیے نئی دواؤں کی جلدی منظوری دے اور ان کی قیمتیں کم رکھی جائیں۔
کریمر نے ایڈز کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے جگہ جگہ تقریریں کیں اور مضامین لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہم جنس پرستوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ اگر ہم جدوجہد نہیں کریں گے تو ختم ہوجائیں گے۔
کریمر نے اپنی جدوجہد کو بارآور ہوتے اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو حقیقت بنتے دیکھا۔ انھوں نے خود 2013 میں اپنے دوست ڈیوڈ ویبسٹر سے شادی کی لیکن آرام سے نہیں بیٹھے۔ انھوں نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شادی کرنے کا حق حاصل کرنا تحریک کا محض ایک جزو تھا۔ ایڈز ابھی بھی ہمیں نقصان پہنچارہی ہے اور ہمیں قانون کے تحت تحفظ حاصل نہیں۔
ان کا مقبول ڈرامہ 'دا نارمل ہارٹ' زمانے سے خفا ایک نوجوان ادیب کی کہانی تھی جو سیاست دانوں، معاشرے کے مختلف طبقوں، میڈیا اور ہم جنس پرست رہنماؤں سے لڑتا ہے، تاکہ دنیا کی توجہ اس بحران کی طرف دلاسکے۔ یہ ان کی اپنی ہی زندگی کا عکس تھا۔
کریمر نے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی سے بھی لڑائی کی اور بعد میں مصالحت کرلی، کیونکہ وہ ایڈز کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے۔ شہری حقوق کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرنے پر انھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
کریمر کا ایک اور بڑا کام دو جلدوں پر مشتمل کتاب 'دا امریکن پیپل' تھی جو امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تاریخ ہے۔ کریمر کا کہنا تھا کہ اپنی تاریخ کے بارے میں جاننا بے حد اہم ہے۔ اس بارے میں کہ تاریخ میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا گیا اور ہمیں مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے کس قدر سخت جدوجہد کرنا پڑی۔