البانیہ نے ایران پر سرکاروی ویب سائٹس پر سائبر حملے کا الزام لگاتے ہوئے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق البانیہ کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ لیے ہیں اور ملک میں ایرانی سفارت خانے کے عملے کو ملک بدر کردیا ہے۔
البانیہ اور امریکہ نے تہران پرتقریباً دو ماہ قبل مبینہ طور پرایک بڑا سائبر حملہ کرنے کا الزام لگایا تھا جس کا ہدف البانیہ کی سرکاری ویب سائیٹس تھیں۔
نیٹو کے رکن ملک البانیہ کا یہ منظر عام پر آنے والہ یہ پہلا ایسا واقعہ ہے جس میں سائبر حملے کی پاداش میں ایک ملک نے کسی دوسرے ملک سے تعلقات منقطع کر لیے ہوں۔
ادھر وائٹ ہاؤس نے بھی بدھ کے روزسائبر اسپیس کی ایک پریشان کن مثال کا حوالہ دیتے ہوئے ایران کے خلاف جوابی کارروائی کے عزم اظہار کیا ہے۔ یہ کارروائی کیا ہو گی اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
ایک بیان میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اس کے ماہرین ہفتوں سے البانیہ کی مدد کے لیے وہاں موجود ہیں اوراس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نظام کو برباد کرنے اور باتوں کو لیک کرنے کے مقصد سے اس لا پروائی اور غیر ذمہ داری سے کئے گئے حملے کی پشت پر ایران تھا۔
البانیہ کے وزیر اعظم اڈی راما نے کہا کہ کے حکومت کے فیصلے سے البانوی دار الحکومت ترانا میں ایرانی سفارت خانے کو باضابطہ طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔
سفارتی اور سیکیورٹی سے متعلق افراد سمیت ایرانی سفارت خانے کے تمام عملے کو چوبیس گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پندرہ جولائی کو اس سائیبر حملے نے البانوی حکومت کی متعدد ڈیجیٹل سروسز اور ویب سائیٹس کو عارضی طور پر بند کردیا تھا۔
راما نے کہا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اس بات کا تعین ہو سکا ہے کہ سائیبر حملہ کسی فرد واحد یا آزاد گروپ نے نہیں کیا۔ انہوں نے اسے ریاستی جارحیت قرار دیا۔
ایک وڈیو بیان میں البانوی وزیر اعظم نے کہا کہ تفصیلی تحقیقات سے ایسے ناقابل تردید شواہد ہمیں ملے ہیں کہ ہمارے ملک کے خلاف سائبر حملہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کروایا۔ جس میں چار گروپ ملوث تھے۔
ایران کے سرکار ٹی وی کے مطابق ایران نے بدھ کے روز سفارت کاروں کی ملک بدری کی مذمت کی اور اس کارروائی کو غلط اور تنگ نظری پر مبنی قرار دیا۔
ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس بات کی تردید کی کہ البانیہ کی حکومت کی کسی بھی ویب سائیٹ پر سائبر حملے کی پشت پر ایران تھا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ایران خود اپنے اہم انفرا اسٹرکچر پر ایسے حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔
دریں اثناء امریکہ کی ممتاز سائبر سیکیورٹی فرم “مینڈئینٹ”نے گزشتہ ماہ کسی حد تک اعتماد ظاہر کیا تھا کہ حملہ آور تہران کے مخالفین کے خلاف کوششوں کی حمایت میں کام کر رہے تھے۔
اور ایک گروپ نے جو خود کو “ہوم لینڈ جسٹس” کہلواتا ہے اس سائبر حملے کی ذمہ داری کا دعوی کیا ہے۔
ہوم لینڈ جسٹس کا دعوی ایک ٹیلیگرام چینل پر آیا۔
بدھ کے روز راما نے تہران پربین الاقوامی سائبر حملے کرنے والے انتہائی بدنام زمانہ گروپوں میں سے ایک گروپ کو بھرتی کرنے کا الزام عائد کیا جو اسرائیل۔ سعودی عرب۔ متحدہ عرب امارات۔ اردن۔ کویت اور قبرص پر حملوں میں ملوث تھا۔ انہوں نے کہ ترانا نے تحقیقات کے نتائج اور اعداد و شمار کو اپنے اسٹریٹیجک پارٹنرز اور نیٹو ممالک کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
ادھر صدر جو بائیڈن کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تعلقات توڑنے کے البانیہ کے فیصلےکی حمایت کرتی ہے۔