الجزائر کی حزب اختلاف نے ہزاروں پولیس اہل کاروں کی موجودگی کے باوجود ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے کو سراہا ہے ۔
تقریباً دو ہزار مظاہرین نے دارالحکومت کے مئی فرسٹ چوک میں ہفتے کے روز مظاہرہ کیا اور الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا ۔ یہ مظاہرہ بظاہرہ مصر اور تیونس کے صدور کو اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے واقعات سے متاثر ہوکر کیا گیا تھا۔
بہت سے مظاہرین نے پولیس کی جانب سے کھڑی کئی گئی رکاوٹیں پھلانگ کو مظاہرے کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کی۔
الجزائر کی حکومت نے حزب اختلاف کے کسی بھی مظاہرے کو روکنے کے لیے تقریباً 30 ہزار پولیس اہل کار تعینات کیے تھے۔ پولیس نے ان مظاہرین کو روک لیا جو چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔مظاہرین اس چوک سے جلوس نکالنا چاہتے تھے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ پولیس نے کئی گھنٹوں تک مظاہرین سے جھڑپوں کے بعد انہیں منشتر کردیا۔ مظاہرین میں انسانی حقوق کے ایک برزگ رکن علی یحیی عبدالنور بھی شامل تھے۔
کئی مظاہرین کو کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا گیا ، تاہم کسی تشدد کی اطلاع نہیں ملی۔
الجزائر کے حزب اختلاف کے راہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے مظاہرے کو کامیاب قرار دیا ہے کہ مظاہرین نے ملک عوامی مظاہروں پر ایک عشرے سے عائد پابندی کو توڑدیا ہے۔
الجزائر کے صدر بوتفلیقہ 1999ء سے اقتدار میں ہیں۔ بہت سے لوگ انہیں ایسے لیڈر کے طورپر دیکھتے ہیں جو ملک میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت اور بے روزگاری ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ علاوہ ا زین تیونس اور مصر میں آنے والی تبدیلیوں نے بھی لوگوں کے جذبات ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔