دوستیوں کو وسعت دینے اور امریکہ میں اثر و رسوخ کے حصول کی چین کی پالیسی اور اس کی مہم حیران کن امریکی ریاست میں پھل پھول رہی ہے، وہ ہے یوٹاہ_ ایک انتہائی مذہبی اور قدامت پسند ریاست جس کے دنیا کے سب سے طاقتور کمیونسٹ ملک سے کچھ واضح تعلقات استوار ہوتے نظر آرہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا ہے کہ اس کی تحقیقات میں یہ بات سامنےآئی ہے کہ چین اور امریکہ میں مقیم چین کے حامی ،ریاست کے عہدہ داروں اور قانون سازوں کے ساتھ برسوں سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں اندرون اور بیرون ملک دونوں جگہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔
اے پی کے مطابق ریاست یوٹاہ کے قانون ساز ان طریقوں کی حمایت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جن سے چینی حکومت کا امیج بہتر ہو سکتا ہے۔
یوٹاہ میں یہ کام ایک ایسے وقت میں مقامی سطح پر اتحادیوں کے حصول کے لیے بیجنگ کی وسیع تر کوشش کی علامت ہے جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ تے جا رہے ہیں۔
امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ مقامی رہنماؤں کےچین کے اثر و رسوخ سے متاثر ہونےکا اندیشہ ہو چلا ہے اور وہ اثر و رسوخ بڑھانے کی اس مہم کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یوٹاہ میں ایف بی آئی کے ایک ریٹائرڈ کاؤنٹر انٹیلی جنس ایجنٹ، فرینک مونٹویا جونیئر،کہتے ہیں کہ یوٹاہ میں بیجنگ کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ چین امریکہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں کتنا مستقل مزاج رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوٹاہ قدم جمانے کا ایک اہم مقام ہے۔’’اگر چینی سالٹ لیک سٹی میں کامیاب ہو سکتے ہیں، تو وہ نیویارک اور دیگر جگہوں پر بھی ایسا کرسکتے ہیں‘‘۔
سیکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی مہم وسیع اور مقامی کمیونٹیز کی مطابقت سے تیار کی گئی ہے ۔
یوٹاہ میں بیجنگ کی مہم پر ریاست اور وفاق مٰیں قانون سازوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے اور اس نےمحکمہ انصاف کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔
ریاست یوٹاہ کے ایک قانون ساز نے اے پی کو بتایا کہ ان کا انٹرویو ایف بی آئی نے 2020 میں ایک ایسی قرارداد پیش کرنے کے بعد کیا تھا جس میں کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا تھا۔
یوٹاہ کے ایک پروفیسر نے جو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان قریبی تعلقات کی وکالت کر تے رہے ہیں، خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان سے ایف بی آئی نے دو بار پوچھ گچھ کی ہے۔
اے پی کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی نےاس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
مقامی طور پر مرکوز اثر و رسوخ کی مہموں میں بیجنگ کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
چین کے رہنما شی جن پنگ نے 2015 میں امریکہ کے دورے کے دوران کہا تھا کہ ’’ذیلی سطح پر کامیاب تعاون کے بغیر قومی سطح پر تعاون کے عملی نتائج حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا‘‘۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے اے پی کو بتایا کہ چین ’’یوٹاہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘‘۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت دیگر ملکوں کا مقامی سفارت کاری میں شرکت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ امریکی حکام اور سیکیورٹی کے ماہرین نے زور دیا ہے کہ چین کے متعدد زبانوں اور ثقافتی تبادلوں کا کوئی پوشیدہ ایجنڈا نہیں ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ بہت کم ملکوں نے اس قدر جارحانہ انداز میں مقامی رہنماؤں سے تعلقات بڑھائے ہیں جو قومی سلامتی کے خدشات کو جنم دیتے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نےاس ماہ کے شروع میں جاری ہونے والے اپنے خطرے کے سالانہ جائزے میں کہا ہےکہ چین قومی سطح پر سخت مزاحمت کے پیش نظر اپنے مقامی اثر و رسوخ کی مہم کو ’’دگنا‘‘ کر رہا ہے
رپورٹ کے مطابق بیجنگ کا خیال ہے کہ ’’مقامی اہل کار وفاق میں اپنےہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ لچکدار ہیں‘‘۔
نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی سینٹر نے جولائی میں ’’ چینی اثر و رسوخ‘‘ کی کارروائیوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے عہدہ داروں نے بھی اسی طرح کے خطرےکے بارے میں انتباہ کیا ہے۔
(یہ رپورٹ ایسو سی ایٹڈ پریس کی فراہم کردی اطلاعات پر مبنی ہے)