پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
منگل کو پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اے این پی کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے الزام لگایا کہ پی ڈی ایم میں شامل کچھ جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لیے پی ڈی ایم کو ہائی جیک کر رہی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم میں اپنے پارٹی رہنماؤں کو حاصل تمام عہدے بھی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا تھا کہ جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس دیا اُنہوں نے خود پی ڈی ایم کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی برابری کی سطح پر ہم سے بات نہیں کرتا تو ہم اس کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہیں۔
امیر حیدر خان ہوتی کا کہنا تھا کہ اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا اختیار صرف پارٹی سربراہ اسفند یار ولی کو ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے حکومتی بینچز کے سینیٹرز سے ووٹ لینے پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کے اس اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کا مؤقف
مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اے این پی کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتوں کا اتحاد ایک بڑے مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے اصرار پر پیپلزپارٹی اور اے این پی سے وضاحت طلب کی تھی کہ آخر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے پی ڈی ایم کو اعتماد میں لیے بغیر حکومتی سینیٹرز سے حمایت کیوں لی گئی۔
جے یو آئی ف کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم کے فیصلوں کی نفی کی جس پر ان سے وضاحت طلب کی گئی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے اقدامات سے پی ڈی ایم کی جگ ہنسائی ہوئی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد گزشتہ سال 20 ستمبر کو اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں تشکیل دیا گیا تھا۔
اتحاد کے تحت ملک کے بڑے شہروں میں جلسے بھی کیے گئے جب کہ گزشتہ ماہ 26 مارچ کو لانگ مارچ کی کال بھی دی گئی تھی جو اتفاقِ رائے نہ ہونے پر واپس لے لی گئی تھی۔
'پی ڈی ایم ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی'
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ وہ بہت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ اس اتحاد میں کوئی جان نہیں ہے اور اب یہ اتحاد خود ہی ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہر جماعت کا اپنا ایجنڈا ہے۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی سیاست اب ختم ہو چکی ہے اور اب یہ وزیرِ اعظم عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
پشاور کے ایک سینئر صحافی ارشد عزیز ملک نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ کسی بھی اتحاد میں شامل جماعتوں کا علیحٰدہ علیحٰدہ منشور، انتظامی ڈھانچہ اور سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے۔
اُن کے بقول یہ جماعتیں سیاسی اتحادیوں کی مشترکہ پالیسیوں کے پابند تو ہوتی ہیں مگر اُن کے رہنماؤں یا عہدیداروں سے کسی دوسری سیاسی جماعت یا اتحاد کے عہدیداروں کو جواب طلبی نہیں کرنی چاہیے۔
پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد 'اے این پی' پر اثرات کے بارے میں ارشد عزیز ملک نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی پہلے ہی سے حزبِ اختلاف میں الگ متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔
ان کے بقول اس فیصلے کے بعد پی ڈی ایم اب عملی طور پر ختم ہو گئی ہے۔ کیوں کہ اس میں شامل ایک اہم اور مؤثر جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی سے علیحدگی پر غور کر رہی ہے۔
اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے تعلقات کی تاریخ
عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان روایتی تاریخی اختلافات کے باوجود 1989 کے وسط میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔
بعدازاں دونوں سیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخوا میں 1990-1993 اور 1997 کے انتخابات میں ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی جس کا دونوں جماعتوں کو فائدہ بھی ہوا۔
البتہ، 1998 میں صوبے کے نام کی تبدیلی کے معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات بھی سامنے آئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی
دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان 70 کی دہائی کے دوران اختلافات رہے مگر 2008 کے انتخابات کے دوران دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور اے این پی پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت میں بھی شامل رہی۔
پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان سامنے آنے والے حالیہ اختلافات کے باوجود دونوں جماعتیں اب بھی ایک دوسرے کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔
قومی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ایک جب کہ سینیٹ میں اس کے پاس دو نشستیں ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پانچ اراکین ہیں۔