پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے حکومتی بینچز کے سینیٹرز سے ووٹ لینے پر پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔
شوکاز نوٹس جاری کرنے پر پہلے سے ہی سیاسی معاملات پر اختلافات کے شکار اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور 'اے این پی' کے سربراہ اسفند یار ولی کو جاری کیے گئے اظہارِ وجوہ کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کے فیصلے کی نفی کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں بطور قائدِ حزب اختلاف تقرری کیوں عمل میں لائی گئی۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد میں اختلاف کی وجہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری بنی تھی جب پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی پانچ جماعتوں کی مخالفت کے باوجود آزاد سینیٹرز کی حمایت سے یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف مقرر کرا لیا تھا۔
پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے اتحاد میں شامل دو جماعتوں کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس جواب کو سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے یوسف رضا گیلانی کو قائدِ حزب اختلاف نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری پر اختلاف کے بعد پی ڈی ایم کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے مطالبہ کیا تھا کہ سینیٹ انتخابات میں ضابطے کی خلاف ورزی پر مولانا فضل الرحمٰن پیپلز پارٹی اور اے این پی سے جواب طلبی کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے اس مطالبے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی ڈی ایم کا اتحاد برابری کی سطح پر مل کر کام کرنے کے لیے بنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام اتحادیوں کو ساتھ رکھیں گے اور کسی ایک جماعت کی طرف داری سے گریز کریں گے۔
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک دوسرے پر تنقید
پیر کو نئے سینیٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو حزبِ اختلاف جماعتوں کے اتحاد میں تفریق واضح طور پر دکھائی دی جب دونوں گروپوں نے اپنے الگ الگ پارلیمانی اجلاس منعقد کیے۔
سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے اپنی اتحادی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، فاٹا اور بلوچستان سے آزاد سینیٹرز کے پارلیمانی سربراہان کے ساتھ اجلاس کیا۔
حزبِ اختلاف کی پانچ جماعتوں مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سینیٹرز کا الگ اجلاس منعقد ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تاڑر نے سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے 27 سینیٹرز پر مشتمل الگ گروپ کے لیے چیئرمین سینیٹ کو باقاعدہ درخواست بھی دے دی ہے جس نے حزب اختلاف کو واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم کے نائب صدر مولانا عبدالغفور حیدری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومتی بینچز میں شامل سینیٹرز کی حمایت لینے پر سوالات اُٹھ رہے ہیں جس کے جواب بہرحال اسے دینا ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت مخالف تحریک جب اپنے عروج پر پہنچی تو پیپلز پارٹی کے اس عمل سے نہ صرف اس کا زور ٹوٹ گیا بلکہ عوام کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد بھی اٹھنے لگا ہے۔
'اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پیپلزپارٹی کا استحقاق ہے'
دوسری جانب پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی اکثریتی جماعت ہونے کی حیثیت سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ان کا استحقاق ہے۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی 'پی ڈی ایم' کی بانی ہے اور ہم ہر گز نہیں چاہیں گے کہ حزبِ اختلاف کا اتحاد ٹوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پر فیصلے مسلط کیے جائیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم اتحاد کا حصہ ضرور ہے لیکن خود مختار جماعت کی حیثیت سے کسی کے ماتحت نہیں کہ اسے شو کاز نوٹس جاری کیے جائیں۔
سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں کہ اگر آزاد سینیٹرز یوسف رضا گیلانی کی حمایت نہ کرتے تب بھی عددی اعتبار سے یوسف رضا گیلانی ہی قائدِ حزب اختلاف بنتے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ حکومتی بینچز پر بیٹھنے والے سینیٹرز اگر حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں تو پی ڈی ایم کو اسے خوش آمدید کہنا چاہیے کیوں کہ اس سے حکومت کمزور ہو گی۔
یاد رہے کہ یوسف رضا گیلانی نے حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر ایوانِ زیریں میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومتی امیدوار عبد الحفیظ شیخ کو شکست دی تھی۔
'پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) غیر فطری اتحادی تھے'
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں حزبِ اختلاف میں اختلافات کی خلیج سے بظاہر مستقبل میں یہ اتحاد مزید کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا اتحاد غیر فطری تھا کیوں کہ روایتی طور پر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا خاتمہ اس اتحاد کے قیام کی وجہ بنا تھا تاہم کئی ماہ کی مشترکہ جدوجہد کے بعد حکومت کا خاتمہ نہ ہونے پر دونوں جماعتوں میں اختلافات سامنے آنا شروع ہوگئے۔
اُن کے بقول جب دونوں جماعتوں کو احساس ہوا کہ حکومت آسانی سے نہیں گرے گی اور ایک طویل مدتی پالیسی درکار ہے تو اس پر مسلم لیگ ن کا نکتۂ نظر پیپلز پارٹی سے کافی مختلف تھا۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کا ایک حلقہ پارلیمنٹ کے اندر کردار پر یقین رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ بات چیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جب کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خاتمے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ اہم سیاسی فیصلوں میں اختلاف رائے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اب کمزور پڑ رہا ہے جس سے لامحالہ حکومت کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔