پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی پاکستان کے ایوانِ (سینییٹ) میں قائد حزب اختلاف مقرر ہو گئے ہیں۔ تاہم حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان یہ معاملہ تنازع بن گیا ہے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس تقرری سے حزبِ اختلاف کے اتحاد کے مقاصد، جدوجہد اور اعتماد کو دھچکہ لگا ہے۔
جب کہ یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے اکثریتی ارکان کی حمایت سے وہ قائد حزبِ اختلاف منتخب ہوئے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی نے حزبِ اختلاف قیادت کو یقین دلایا کہ پی ڈی ایم اتحاد قائم رہے گا اور وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں اعظم نذیر تاڑر کو حزبِ اختلاف کے قائد کے لیے امیدوار نامزد کیا تھا جنہیں 28 سینٹرز کی حمایت حاصل ہو سکی۔
رواں ہفتے جمعے کو پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کی 30 سینیٹرز کی دستخط شدہ درخواست جمع کرائی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی 21 سینٹرز کے ساتھ سینیٹ کی دوسری بڑی جماعت ہے۔ جس کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو عوامی نیشنل پارٹی کے دو، جماعت اسلامی کے ایک، فاٹا سے منتخب دو سینٹرز کی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ سینٹر دلاور خان کی سربراہی میں آزاد سینٹرز پر مشتمل نئے پارلیمانی گروپ کے چار سینٹرز نے بھی یوسف رضا گیلانی کی حمایت کی ہے۔
مسلم لیگ کا بھی دعویٰ ہے کہ انہیں 28 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں مسلم لیگ (ن) کے اپنے 17، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے پانچ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چار اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو ارکان شامل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے مشترکہ طور پر قائدِ حزبِ اختلاف کی نشست مسلم لیگ کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ اپوزیشن لیڈر کا منصب ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی اکثریتی جماعت کا حق ہے۔
گیلانی تقرری حکومت مخالف اتحاد میں واضع خلیج کی علامت
یوسف رضا گیلانی کی اپوزیشن لیڈر کے طور پر تقرری کو حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں واضع خلیج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کی تقرری کے معاملے پر حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے قائم رہنے کے باوجود حالیہ عرصے میں دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے جس بنا پر حزبِ اختلاف کا اتحاد کوئی مشترکہ لائحہ عمل نہیں بنا پا رہا۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں حزبِ اختلاف کا اتحاد کوئی مشترکہ حکمتِ عملی نہیں بنا پائے گا کیوں کہ ان کے بقول دو بڑی جماعتوں کے سیاسی بیانیے میں بہت فرق ہے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قیادت کے درمیان نہ صرف لائحہ عمل بلکہ بنیادی مقاصد پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نظام کے اندر رہتے ہوئے حکومت کو گرانے پر یقین رکھتی ہے جب کہ مسلم لیگ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا چاہتی ہے۔ ایسے میں یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ پی ڈی ایم کا ڈھانچہ برقرار رہتے ہوئے بھی حزبِ اختلاف مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپنا سکے گی۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف کی وجہ سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ نہیں بنا۔ بلکہ یہ دونوں جماعتوں کا حکومت مخالف لائحہ عمل اور حکمتِ عملی پر اختلاف کا تسلسل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے محدود سیاسی کردار کے باعث پی ڈی ایم اتحاد کے اختلافات ختم کرانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
'آصف زرداری نواز شریف میں اعتماد کا فقدان ہے'
اخبار 'پاکستان ٹو ڈے' کے مدیر عارف نظامی کہتے ہیں کہ باہمی اختلاف پر کھلم کھلا بیانات سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اکھٹے چلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کی ایک تاریخ ہے اور دونوں جماعتوں کی قیادت کا ایک دوسرے پر اعتماد میں فقدان پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو ہمیشہ خدشہ رہتا ہے کہ نواز شریف انہیں دھوکہ دیں گے۔ جس کی مثال وہ 2015 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے اختلاف کی وقت کی دیتے ہیں کہ انہیں نواز شریف نے دھوکہ دیا۔
عارف نظامی کہتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے ووٹرز اور حلقہ انتخاب بھی مختلف ہیں۔ ایک وسطی پنجاب جب کہ دوسری سندھ کی جماعت ہے۔ ان کے بقول اس کے علاوہ پیپلز پارٹی ایک صوبے میں حکمران جماعت ہے جب کہ مسلم لیگ مکمل طور پر اقتدار سے باہر ہے جو کہ حکمتِ عملی میں فرق کی ایک اور وجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات اچانک شدت اختیار کر گئے جس کی ایک وجہ مسلم لیگ (ن) کا اعظم نذیر تاڑر کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کا امیدوار نامزد کرنا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اعظم تارڑ بے نظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں نامزد پولیس اہلکاروں کے وکیل رہے ہیں جس بنا پر پیپلز پارٹی نے انہیں تسلیم کرنے پر اعتراض کیا تھا۔
یاد رہے کہ یوسف رضا گیلانی نے رواں ماہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر ایوانِ زیریں میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومتی امیدوار عبد الحفیظ شیخ کو شکست دی تھی۔
جس کے بعد اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چیئرمین سینیٹ کے لیے یوسف رضا گیلانی کو حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے مقابلے میں کھڑا کیا۔
بارہ مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت اس وقت تنازع کھڑا ہو گیا تھا جب اپوزیشن جماعتوں کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہونے سے حکومتی اُمیدوار صادق سنجرانی کو غیر متوقع کامیابی ملی تھی۔
یوسف رضا گیلانی نے اس انتخاب کے نتائج کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جہاں سے ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔
پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو اب سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے۔