|
امریکہ میں ماضی میں فعال رہنے والے مسلم مخالف نفرت انگیزی میں ملوث وہ گروہ جو گزشتہ کچھ عرصے میں کم نمایاں تھے اب غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر متحرک نظر آ رہے ہیں اور توجہ کا مرکز بھی بن گئے ہیں۔
’جہاد واچ‘ اور ’اے سی ٹی فار امریکہ‘ جیسے گروپ امریکہ پر 2001 میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ابھرے تھے۔ یہ گروپ عوام میں دہشت گردی کے خدشات کی بنا پر پروان چڑھے۔
حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے بارے میں خدشات کم ہونے سے اس طرح کے گروہوں کا اثر بھی کم ہو گیا ہے اور یہ گروہ بھی دیگر مسائل کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔
نفرت انگیزی میں ملوث گروہ کا ریکارڈ رکھنے والے ’سدرن پاورٹی لا سینٹر‘ کے مطابق 2017 میں ایسے گروہوں کی تعداد 114 تھی جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد کم ہو کر محض 34 رہ گئی تھی۔
سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار کالیب کیفر کہتے ہیں کہ 2023 کے اوائل میں ’اسلامو فوبیا‘ میں کمی آ رہی تھی۔ اس کے بعد گزشتہ سال ہی سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کا حملہ ہوا جس میں لگ بھگ بارہ سو افراد ہلاک ہوئے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر اسرائیلی فوجی کارروائی کی صورت میں رد عمل دیکھا گیا۔ ایسے میں یہ مسلم مخالف نفرت انگیزی میں ملوث گروہ دوبارہ فعال ہوگئے۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں سدرن پاورٹی لا سینٹر کے کیفر نے کہا کہ یہ مسلم مخالف گروہ اپنے بنیادی پیغامات کی طرف لوٹ آئے ہیں اور گزشتہ برس اکتوبر سے ان کی بیان بازی میں سختی آرہی ہے۔
ان گروہوں میں شامل ’اے سی ٹی فار امریکہ‘ کا قیام 2007 میں ہوا تھا۔ اسے ایک لبنانی امریکی سیاسی کارکن بريجيت گیبریئل نے بنایا تھا جو خود کو ’دہشت گردی سے بچ جانے والی‘ بیان کرتی ہیں۔
سدرن پاورٹی لا سینٹر کے مطابق ایک وقت میں اس گروپ کے 50 سے زیادہ فعال چیپٹرز تھے۔ سدرن پاورٹی لا سینٹر اس کے ہر باب کو ایک الگ نفرت پر مبنی گروپ کے طور پر شمار کرتا تھا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس کے زیادہ تر چیپٹر یا تو بند یا دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس گروپ کے صرف آٹھ چیپٹرز باقی ہیں۔
گزشتہ سال سات اکتوبر سے پہلے یہ گروپ غیر قانونی امیگریشن کے خلاف سرگرم تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ ٹیکس دہندگان کی مالی اعانت سے چلنے والے سرحدی حملے کو روکا جائے۔
پچھلے سال اکتوبر کے بعد اس گروپ نے اپنے ایجنڈے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امریکہ آمد پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
بريجيت گیبریئل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھر پور حامی ہیں۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو مقامی جہادی دہشت گردی کے بارے میں متنبہ کیا۔
انہوں نے اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مسلم مخالف کتاب ’بیکاز دے ہیٹ: اے سروائیور آف اسلامک ٹیرر وارنز امریکہ‘ کی 25 ڈالر عطیہ کے بدلے تشہیر کی۔
بريجيت گیبریئل نے اکتوبر میں ’ویک اپ امریکہ‘ کے عنوان سے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے پاس امریکہ بھر میں پھیلا ہوا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔
اسی طرح متنازع مسائل پر توجہ مرکوز کرنے والے دوسرے گروپ اپنے بنیادی ایجنڈے پر واپس آ گئے ہیں۔
’جہاد واچ‘ کے نام کی ویب سائٹ چلانے والے مسلم مخالف رابرٹ اسپینسر نے گزشتہ اکتوبر میں ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ ہم وحشیوں اور تہذیب کے درمیان جنگ میں ہیں۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے آٹھ دن بعد فرنٹ پیج میگزین سے منسلک ایک سیاسی ویب سائٹ نے تحریر پوسٹ کی۔ مضمون میں یہ دلیل دی گئی کہ حماس نے جو کچھ کیا ہے وہ مسلمانوں نے پوری تاریخ میں کیا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔
فرنٹ پیج میگزین کی اشاعت ‘ڈیوڈ ہوروٹز فریڈم سینٹر‘ کی طرف سے ہوتی ہے جو ایک اور جانا پہچانا مسلم مخالف گروپ ہے۔
’جہاد واچ‘ بھی اسی سینٹر کا ایک منصوبہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اے سی ٹی فار امریکہ، جہاد واچ اور ڈیوڈ ہوروٹز فریڈم سینٹر بڑی مالی امداد سے چلنے والی مسلم مخالف طبقے کا حصہ ہیں جس میں ہر گروپ اپنا الگ کردار ادا کرتا ہے۔
وائس آف امریکہ نے ان گروہوں کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا۔
اے سی ٹی فار امریکہ کے ترجمان نے وی او اے کو ایک بیان میں’مسلم مخالف‘ لیبل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم نے ہمیشہ مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے افراد کا خیر مقدم کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کو شامل کیا ہے.
ترجمان کے مطابق تنظیم نے اپنی کانفرنسوں میں مسلم کلیدی مقررین کی میزبانی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے سی ٹی فار امریکہ کئی مسائل پر کام کرتی ہے جن میں سے کوئی بھی مسلم مخالف نہیں ہے۔
ان کے بقول 2018 اور 2024 کے درمیان داعش اور القاعدہ کی شکست کے بعد سے بنیاد پرست اسلام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں جہاد واچ کے اسپینسر نے سدرن پاورٹی لا سینٹر پر ان تنظیموں کو بدنام کرنے کا الزام لگایا جو اس کے بائیں بازو کے سیاسی ایجنڈے کی مخالفت کرتی ہیں۔
انہوں نے سدرن سینٹر پر الزام لگایا کہ وہ ان جیسی تنظیموں کو نسل پریست کے کے کے اور نیو نازیز جیسے گروہوں کےساتھ ملاتا ہے۔
سینٹر فار سیکیورٹی پالیسی میں سینئر تجزیہ کار جے مائیکل والر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تنظیم کے مسلم مخالف ہونے کو بہتان قرار دیا۔
سدرن پاورٹی لا سینٹر نے اپنے طریقۂ کار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان ہی گروہوں کو کسی کا مخالف قرار دیتا ہے جو لوگوں کو ان کی نسل، مذہب، جنسی شناخت اور جنسی رجحان کی بنیاد پر بدنام کرتے ہیں۔