|
کابل—"مجھے ہمیشہ اس بات پر افسوس اور ملال رہے گا کہ میں اپنی کلاس فیلوز کو جاتے وقت الوداع تک بھی نہیں کہہ سکی۔"
یہ کہنا ہے کابل کی رہائشی ویدہ حیدری کا جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت ساتویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھیں۔
ویدہ حیدری کے اسکول سے دوری کے 1000 دن مکمل ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔
طالبان حکومت کا اصرار ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ کچھ تکنیکی معاملات پر قابو پانے پر کام کر رہے ہیں۔
ویدہ حیدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مسلسل گھر بیٹھنے سے مختلف ذہنی امراض کا شکار ہو گئی تھیں جس کے بعد انہوں نے ایک قریبی پینٹنگ اکیڈمی میں داخلہ لیا۔
طالبہ کے مطابق پینٹنگ نے یقیناً انہیں ایک نئی زندگی دی ہے اور اب وہ اس کے ذریعے اپنے خیالات کو کینوس پر اتارتی ہیں۔
حال ہی میں کابل میں منعقد ہونے والی ایک نمائش میں ویدہ نے بھی اپنا پینٹنگ اسٹال لگایا تھا۔ ان کی زیادہ تر پینٹنگز میں تعلیم کی جھلک نمایاں ہوتی ہیں۔
اپنی ایک پینٹنگ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کیسے تعلیم سے محرومی انسان سے اس کی سوچ، بیان اور حوصلے کی آزادی چھین لیتی ہے۔
ان کے بقول تعلیم کے بغیر ایک انسان مکمل طور پر لاچار اور مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔
کابل کے رہائشی احمد خالد درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ ان کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم سے دوری ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں جب لڑکیوں کو اسکول آنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
ان کے بقول ہر صبح جب وہ اپنے دو بیٹوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے نکلتے ہیں اور بیٹی دروازے تک رخصت کرنے آتی ہے تو ان سے یہ دیکھا نہیں جاتا۔
احمد خالد کے بقول وہ خود کو ایک ایسے گناہ کے مجرم سمجھنے لگتے ہیں جس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔
سابق افغان رکنِ پارلیمنٹ شینکئی کڑوخیل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ان کے تین قیمتی سال ضائع کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ تعلیم سے محرومی کے نہ صرف لڑکیوں کی زندگی بلکہ افغانستان کی تعمیر و ترقی پر بھی نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے بقول لڑکیوں کی تعلیم سے دوری ملک میں انتہا پسندی کے ایک نئے باب کو جنم دے سکتی ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
شینکئی کڑوخیل کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم سے پابندی پر نظرِ ثانی کریں۔
سابق رکن پارلیمنٹ کے مطابق تعلیم سے محرومی کم عمر لڑکیوں کی شادی کا سبب بنتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ خراب اقتصادی حالات کے پیشِ نظر لوگ اپنی بچیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کروا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ ویمن کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی عائد ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر طالبان حکومت کی جانب سے تعلیم کے حصول پر لگائی جانے والی پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو لڑکیوں کی کم عمری کی شادیوں میں 25 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان لڑکیوں اور خواتین میں زچگی کی شرح اموات میں بھی کم از کم 50 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔
فورم