پاکستان میں حالیہ دنوں میں وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے قومی اقلیتی کمیشن کی مجوزہ تشکیل کے خلاف سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اقلیتی کونسل کے قیام کے فیصلے پر عمل در آمد کے لیے شعیب سڈل کمیشن تشکیل دیا تھا۔ تاہم وزارتِ مذہبی امور نے کمیشن سے مشاورت کے بغیر اقلیتی کمیشن کی تشکیل کی سمری کابینہ کو بھجوا دی۔
شعیب سڈل نے کہا کہ وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے اقلیتی کمیشن کی مجوزہ تشکیل عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ وزارت کا تجویز کردہ اقلیتی کمیشن پاکستان کی بین الاقوامی یقین دہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
درخواست میں کہا گیا کہ اقلیتی کمیشن پہلے سے وجود رکھتا تھا تو وزارت مذہبی امور نے عدالت کو آگاہ کیوں نہ کیا، قومی اقلیتی کمیشن کے وجود سے اقلیتی برادری بھی آگاہ نہیں۔
شعیب سڈل نے کہا کہ اقلیتی کونسل کے قیام کے لیے مجوزہ بل پر بھی وزارتِ مذہبی امور نے کوئی رائے نہیں دی۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت وزارتِ مذہبی اُمور کو حکم دے کہ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اقلیتی کونسل کا قیام عمل میں لائے۔
اقلیتی کمیشن پر عدالت کا حکم کیا تھا؟
سال 2013 میں پشاور میں چرچ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دورن ملک میں اقلیتی کمیشن کے قیام کا حکم دیا تھا۔
تاہم اس بارے میں کئی سال تک کوئی پیش رفت نہ ہوئی جس پر عدالت نے گزشتہ سال ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دے دیا جس نے اس حوالے سے تمام سفارشات تیار کیں۔
شعیب سڈل کی تیار کردہ یہ سفارشات ایک ڈرافٹ کی صورت میں حکومت کو بھجوائی گئیں۔
لیکن شعیب سڈل کے بقول حکومت نے اس ڈرافٹ کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے اقلیتی کمیشن کے ارکان کا اعلان کر دیا۔
رواں سال فروری میں سماعت کے دوران وزارتِ مذہبی اُمور نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کمیشن کی تشکیل کے معاملہ کو پارلیمان میں لیجا رہے ہیں۔
لیکن اب حکومت نے اس کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وفاقی کابینہ نے قومی اقلیتی کمیشن کی منظوری دے دی ہے۔ جس میں کسی قادیانی کو ممبر نہیں بنایا گیا۔ کابینہ نے وزارتِ مذہبی امور کی سمری کو منظور کر لیا ہے۔
نورالحق قادری کے مطابق سندھ کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے چیلا رام کیولانی قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ کمیشن میں ہندو اور مسیحی برادری سے تین، تین جب کہ سکھ برادری سے دو، کیلاش اور پارسی برادری سے ایک، ایک ممبر شامل ہے۔
مفتی گلزار نعیمی اور مولانا عبدالخبیرآزاد مسلم ممبر ہوں گے جب کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بھی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔
سیکرٹری مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کمیشن کے سیکرٹری کے فرائض انجام دیں گے۔
اقلیتی کمیشن اور قادیانی تنازع
اس کمیشن کے قیام سے قبل کابینہ میں بھجوائی جانے والی سمری کے حوالے سے بھی ایک تنازع سامنے آیا تھا۔
وزارت مذہبی امور کی طرف سے ابتداً سمری میں لکھا گیا کہ قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اس کمیشن کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس بارے میں دستاویزات بھی سامنے آئیں اور وزارت مذہبی امور کا ایک بیان بھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا غلطی سے ہوا اور کسی قادیانی کو اس کمیشن کا ممبر نہیں بنایا جائے گا۔
لیکن بعد میں وزارتِ مذہبی اُمور کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ ایسی کوئی سمری بھجوائی ہی نہیں گئی تھی۔
حکومت نے اس حوالے سے جو کمیشن بنایا اس میں ہندو، سکھ، مسیحی، کیلاش اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شعیب سڈل نے اس کمیشن کے قیام کے حکومتی فیصلے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کر چکے ہیں۔
لہذٰا معاملہ عدالت میں ہونے کے باعث مناسب نہیں کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ کریں۔