پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر دو برس سے حراستی مرکز میں قید عارف گل نامی شہری کو عدالت میں پیش کر دیا۔ عدالت نے مذکورہ شخص کے معاملے کو حراستی مراکز کے ساتھ منسلک کر دیا۔
عارف گل کے لواحقین کی طرف سے عدالت میں درخواست کی گئی تھی کہ انہیں گزشتہ دو برس سے زائد عرصے سے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے اور اہلِ خانہ کی کوئی ملاقات نہیں کروائی جا رہی۔
پیر کو ہونے والی سماعت پر عدالت نے حکم دیا تھا کہ عارف گل کو عدالت میں پیش کریں بصورتِ دیگر وزیرِ اعظم کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔
منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عارف گل سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ جی بتائیں آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہے۔
اس موقع پر عارف گل نے ایڈووکیٹ جنرل کی طرف دیکھا جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے عدالت کو بتایا کہ عارف گل اردو نہیں سمجھ سکتا، میں آپ کی بات کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔
پشتو میں سوال کے بعد عارف گل نے پشتو میں جواب دیا اور کہا کہ میں ہوٹل پر کام کرتا تھا، کسی نے میرے بارے میں شکایت کی اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل یہ بتائیں عارف گل پر الزام کیا ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ عارف گل پر الزامات کی دستاویز ریکارڈ پر موجود ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ عارف گل پر سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کا الزام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حراستی مراکز کا معاملہ لارجر بینچ میں ابھی زیر التوا ہے۔
کمرۂ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ عارف گل کی شناخت ہو گئی ہے، میری استدعا ہے معاملہ کو نمٹا دیں یا لارجر بینچ کے ساتھ منسلک کر دیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے عارف گل حبس بے جا کیس، حراستی مراکز کیس کے ساتھ منسلک کر دیا۔
عدالتی حکم کے بعد خیبر پختونخوا پولیس عارف گل کو لے کر واپس حراستی مرکز کوہاٹ روانہ ہو گئی۔
اس سے قبل عارف گل حبسِ بے جا کیس کی سماعت کرنے والا بینچ اچانک تبدیل ہو گیا اور جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ کا حصہ نہیں رہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا جس میں جسٹس اعجاز الااحسن،جسٹس قاضی امین شامل کر لیے گئے۔
عارف گل نامی شہری کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا۔
عارف گل کے لواحقین کی طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ عارف گل کو دو سال سے زائد عرصہ سے حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے جس پر عدالت نے عارف گل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا عارف گل کو لے کر آئے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ عارف گل حراستی مرکز میں ہے، عدالت لانا مشکل ہے۔
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا عارف گل کو پیش کرنے سے سپریم کورٹ کی عمارت اڑ جائے گی؟ عارف گل کو پیش نہیں کرنا تو سپریم کورٹ کو تالا لگا دیتے ہیں۔ عارف گل کو پیش نہ کیا تو وزیرِ اعظم کو بلا لیں گے۔
چیف جسٹس نے عارف گل کو پیر کو ہی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزم کو لانے میں چار سے پانچ گھنٹے لگیں گے جس پر عدالت نے منگل کو عارف گل کو پیش کرنے کا حکم دیا اور عدالتی حکم پر اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود حراستی مراکز کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ التوا ہے۔ ان حراستی مراکز میں موجود افراد کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان حراستی مراکز میں موجود افراد کو ووکیشنل ٹریننگ سمیت تعلیم دے کر قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مقدمات چلائے بغیر حراستی مراکز میں لوگ قید کیوں ہیں؟
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست 2019 میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہو گئے تھے۔
سپریم کورٹ نے اکتوبر 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن آرڈینس کو ختم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کے لیے 25 اکتوبر 2019 کو ایک بڑا بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ 2019 میں جسٹس وقار احمد سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔
عدالت عظمی نے اس اپیل پر خود کسی فیصلے تک پہنچے تک پشاور کی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے 17 اکتوبر 2019 کے فیصلے میں ان حراستی مراکز کو تین روز میں صوبائی پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔