آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ مورسن نے کہا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے کمپیوٹر نیٹ ورکس ایک سائبر حملے کا نشانہ بنے۔ سرکاری عہدے داروں کے مطابق کمپیوٹر یہ حملے کسی ایسے ریاستی عناصر نے کیے ہیں جن کے پاس جدید تکنیکی مہارتیں موجود ہیں۔
آسٹریلیا کے سائبر سیکورٹی کے اداروں نے کسی کا نام لیے بغیر خیال ظاہر کیا ہے کہ اس ماہ کے شروع میں ہونے والے حملو ں کے پس پشت کسی غیر ملکی حکومت کا ہاتھ تھا۔ اس حملے میں تمام بڑی جماعتوں کے زیر استعمال کمپیوٹر نیٹ ورکس کو ہدف بنایا گیا تھا۔
اس در اندازی کا انكشاف دارالحکومت کینبرا میں پارلیمنٹ ہاؤس کے کمپیوٹر سرورز کی ہیکنگ کی چھان بین کے دوران ہوا۔
وزیر اعظم مورسن کا کہنا تھا کہ ارکان آگاہ ہوں گے کہ آسٹریلیا کے سائبر سیکورٹی سینٹر نے حال ہی میں آسٹریلیوی پارلیمنٹ ہاؤس کے کمپیوٹر نیٹ ورک پر ایک شاطرانہ در اندازی کا پتا چلایا ہے۔ اس چھان بین کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ سیاسی جماعتوں لبرل، لیبر اور نیشنلز کے نیٹ ورکس بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے سائبر ماہرین کا خیال ہے کہ اس شر انگیز سرگرمی کا ذمہ دار جدید تکنیکی مہارتوں کا حامل کوئی ریاستی عنصر ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ کسی انتخابی مداخلت کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں لیکن آسٹریلیا ردعمل میں اپنا سائبر ڈیفنس مضبوط کر رہا ہے۔
دسمبر میں کینبرا نے چین پر پہلی بار کھلم کھلا یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ کمرشل راز چرانےکے لیے سائبر جاسوسی کی ایک مہم کی مدد کر رہا ہے۔
2015 اور 2016 میں آسٹریلیا کے موسمیاتی اور شماریاتی سرکاری اداروں پر بڑے حملے ہوئے تھے۔
بیجنگ اس سے قبل آسٹریلیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے انکار کر چکا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں آن لائن مداخلت کے بعد میڈیا میں بھی یہ قیاس آرائی کی گئی تھی کہ ہو سکتا ہے اس میں شمالی کوریا اور روس ملوث ہوں۔
عہدے داروں نے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی یا چوری کے بارے میں کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔