کراچی —
یحیٰ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا تھا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا اُس کے بس میں نہ تھا۔ نظریں چراتے ہوئے، بس ایک ہی بات دہراتا رہتا۔
اسے اسکول میں داخلہ تو مل گیا۔ لیکن، کچھ ہی دنوں میں اسکول نے کہا کہ اس بچے کو کسی ایسے اسکول میں داخل کرا دیا جائے جہاں اس کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ یحیٰ آٹزم کا شکا ر تھا۔
بدھ کو آٹزم سے آگہی کے عالمی دن کے موقع پر آٹزم کے شکار ایک بچے، یحیٰ کی ماں رحیمہ سعید نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خصوسی ضروریات رکھنے والے بچوں کے بارے میں لوگوں میں آگہی بہت ہی کم ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں میں بھی آٹزم جیسے مرض کے بارے میں معلومات اور تربیت کی کمی ہے؛ اور ایسے بچوں کے علاج کے لئے میعاری اور خصوصی مراکز اور ماہرین بھی بہت کم ہیں۔
رحیمہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے یحیٰ کے مرض کی تشخیص بہت سے آٹسٹک بچوں کی طرح بہت دیر سے ہوئی اور پھر کچھ ہی دنوں بعد کوئی ایک نیا انکشاف ہو جاتا، اور ہوتے ہوتے اتنی دیر ہوگئی کہ اس نے اس دنیا سے ہی نظریں چرا لیں۔
ماہرین کے مطابق، آٹزم، جو کئی مسائل کا مجموعہ کہلاتا ہے، اس کی اصل وجہ کوئی نہیں جانتا۔
اس مرض میں بچے کے دماغ کی نشو نما نارمل نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو دوسروں کے ساتھ روابط، تعلقات اور برتاوٴ میں مشکل ہوتی ہے؛ اور اس مرض کی تشخیص اگر جلد ہو جائے تو خصوصی تعلیم و تربیت سے کافی مدد ملتی ہے۔
کراچی میں خصوصی ضروریات رکھنے والے بچوں کے مرکز ’اسپیشل چلڈرن ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ‘ کی بانی سربراہ، صائمہ حق سیم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ آٹزم سے متاثرہ بچے ذہنی مشکلات کی وجہ سے نئی باتیں مشکل سے سیکھتے ہیں اور اس لئے ان بچوں کو مخصوص اسکول میں تعلیم و تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔
آٹزم سے آگہی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن صرف آگہی کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں سب کو برابری کا مقام دلانے کے لئے اقدام کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اسے اسکول میں داخلہ تو مل گیا۔ لیکن، کچھ ہی دنوں میں اسکول نے کہا کہ اس بچے کو کسی ایسے اسکول میں داخل کرا دیا جائے جہاں اس کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ یحیٰ آٹزم کا شکا ر تھا۔
بدھ کو آٹزم سے آگہی کے عالمی دن کے موقع پر آٹزم کے شکار ایک بچے، یحیٰ کی ماں رحیمہ سعید نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خصوسی ضروریات رکھنے والے بچوں کے بارے میں لوگوں میں آگہی بہت ہی کم ہے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں میں بھی آٹزم جیسے مرض کے بارے میں معلومات اور تربیت کی کمی ہے؛ اور ایسے بچوں کے علاج کے لئے میعاری اور خصوصی مراکز اور ماہرین بھی بہت کم ہیں۔
رحیمہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے یحیٰ کے مرض کی تشخیص بہت سے آٹسٹک بچوں کی طرح بہت دیر سے ہوئی اور پھر کچھ ہی دنوں بعد کوئی ایک نیا انکشاف ہو جاتا، اور ہوتے ہوتے اتنی دیر ہوگئی کہ اس نے اس دنیا سے ہی نظریں چرا لیں۔
ماہرین کے مطابق، آٹزم، جو کئی مسائل کا مجموعہ کہلاتا ہے، اس کی اصل وجہ کوئی نہیں جانتا۔
اس مرض میں بچے کے دماغ کی نشو نما نارمل نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو دوسروں کے ساتھ روابط، تعلقات اور برتاوٴ میں مشکل ہوتی ہے؛ اور اس مرض کی تشخیص اگر جلد ہو جائے تو خصوصی تعلیم و تربیت سے کافی مدد ملتی ہے۔
کراچی میں خصوصی ضروریات رکھنے والے بچوں کے مرکز ’اسپیشل چلڈرن ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ‘ کی بانی سربراہ، صائمہ حق سیم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ آٹزم سے متاثرہ بچے ذہنی مشکلات کی وجہ سے نئی باتیں مشکل سے سیکھتے ہیں اور اس لئے ان بچوں کو مخصوص اسکول میں تعلیم و تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔
آٹزم سے آگہی کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن صرف آگہی کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں سب کو برابری کا مقام دلانے کے لئے اقدام کیے جانے کی ضرورت ہے۔