پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان جاری دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز پاکستانی بلے باز اظہر علی 64 رنز پر بہت اعتماد سے بیٹنگ کر رہے تھے۔ اس موقع پر آسٹریلیا کے تیز بالر سڈل کے ایک اوور میں اُنہوں نے گلی کی طرف ایک شاٹ کھیلا۔
بال تیزی سے باؤنڈری کی طرف جا رہی تھی۔ اظہر کا شاید خیال تھا کہ بال باؤنڈری پار کر جائے گی۔
وہ اپنی کریز سے نکل کر پچ کے وسط تک پہنچے اور دوسری طرف سے اسد شفیق بھی کریز سے باہر نکل کر اُن کی طرف بڑھے۔ دونوں ایک دوسرے سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔
اُدھر گیند باؤنڈری سے چند انچ پہلے خود بخود رک گئی۔ بائیں ہاتھ سے تیز گیند کرنے والے بالر مچل سٹارک نے بال اُٹھا کر وکٹ کیپر ٹم پین کی طرف پھینکی جنہوں نے فوراً ’بیلز‘ اُڑا کر اظہر علی کو رن آؤٹ کر دیا۔
اس سارے مرحلے میں اظہر علی نے بھاگ کر کریز میں واپس پہنچنے کی بظاہر کوئی کوشش نہیں کی اور وہ پچ کے درمیان میں کھڑے حیرت سے ٹم پین کو وکٹیں گراتے دیکھتے رہے۔ گویا اُنہیں اس بات کا یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ سب واقعی ممکن ہے۔
ماہرین اس بات پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اظہر علی اور اسد شفیق دونوں پاکستان کے تجربہ کار بیٹسمین ہیں۔ یہ دونوں مجموعی طور پر 130 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی غور سے نہیں دیکھا کہ کیا واقعی بال نے باؤنڈری پار کی تھی یا نہیں۔ کرکٹ کے رولز کے مطابق جب تک بال ڈیڈ نہ قرار پائے، بیٹسمینوں کو کریز کے اندر رہنا چاہئیے۔
کھیل ختم ہونے کے بعد اظہر علی نے بتایا کہ وہ اسد شفیق سے بال کے لیٹ سونگ ہونے کے بارے میں بات کر رہے تھے اور اُنہوں نے کسی فیلڈر کو بال کی طرف بھاگتے نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے مچل سٹارک کو بال وکٹ کیپر کی طرف پھینکتے بھی نہیں دیکھا اور جب بالآخر اُنہوں نے ٹم پین کو اپنے دستانوں میں بال کیچ کر کے وکٹ کی طرف بڑھتے دیکھا تو اُنہیں احساس ہوا کہ کچھ غیر معمولی چیز ہو رہی ہے۔
تاہم، اس قدر مضحکہ خیز رن آؤٹ ہونے کا واقعہ پاکستانی کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔
2 نومبر، 2016 کو شارجہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے چوتھے روز دوسری اننگ میں پاکستان نے سات وکٹوں کے نقصان پر 192 رنز بنائے تھے۔ کریز پر وہاب ریاض اور محمد عامر موجود تھے۔
محمد عامر نے ویسٹ انڈیز کے سپنر بشو کی گیند پر زور دار شاٹ لگائی اور بال ہوا میں بلند ہوتی ہوئی لانگ آن باؤنڈری کی طرف جا رہی تھی۔ محمد عامر کو یقین ہو گیا کہ یہ چھکا ہوگا۔ وہ سست روی سے چلتے ہوئے نان سٹرائیکنگ اینڈ کی جانب گئے اور وہاب ریاض سے گفتگو کرنے لگے۔
دوسری جانب بال کا پیچھا کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کے فیلڈر چیز نے باؤنڈری کے بالکل قریب سے اچھل کر بال کیچ کرنے کی کوشش کی اور اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث وہ باؤنڈری پر گرنے والے تھے جب اُنہوں نے بال فیلڈ کے اندر لڑکا دی اور پھر واپس آ کر بال وکٹ کی جانب جیسن ہولڈر کی جانب پھینک دی۔ اُس وقت محمد عامر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُنہوں نے بھاگ کر اپنی کریز میں واپس پہنچنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس دوران بلا اُن کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ ڈائیو نہ کر سکے۔ ہولڈر نے یوں نہایت آسانی سے اُنہیں رن آؤٹ کر دیا۔
آج کے تازہ واقعہ میں اظہر علی نے اس روایت کو قائم رکھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ شاید لوگ برسوں تک اس واقعے کو بھول نہیں پائیں گے۔