واشنگٹن —
خلیجی عرب ریاست بحرین کی ایک اعلیٰ عدالت نے گزشتہ سال چلنے والی حکومت مخالف تحریک کے 13 سرکردہ افراد کو سنائی گئی سزائوں کے خلاف دائر اپیلیں مسترد کردی ہیں۔
پیر کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں اعلیٰ عدالت نے ماتحت عدالتوں کی جانب سے ان ملزمان کو دی گئی قید کی سزائیں برقرار رکھی ہیں۔
ماتحت عدالتوں نے 13 میں سے آٹھ افراد کو عمر قید جب کہ دیگر پانچ کو 5 سے 15 برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ سزا پانے والے ان افراد میں سے اکثر کا تعلق شیعہ مکتبِ فکر سے ہے۔
بحرین کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے لیکن حکومت سنی العقیدہ ہے جسے اپنے پڑوسی عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
حزبِ اختلاف کے ان کارکنوں کو بحرین کے حکمران خاندان 'الخلیفہ' کے خلاف 2011ء میں چلنے والی احتجاجی تحریک کے دوران میں سرگرم کردار ادا کرنے پر سزائیں سنائی گئی تھیں۔
استغاثہ نے ان افراد پر حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے "دہشت گرد گروہ" تشکیل کرنے اور "غیر ملکی طاقتوں " کے ساتھ خفیہ روابط قائم کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
"غیر ملکی طاقتوں" سے بحرینی حکام کی مراد شیعہ اکثریتی ملک ایران اور لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم حزب اللہ ہوتی ہے۔ ایران کا موقف رہا ہے کہ وہ بحرین کی شیعہ آبادی کی اخلاقی حمایت کرنے کے علاوہ کسی قسم کی مدد نہیں کرتا۔
سنہ 2011 میں چلنے والی احتجاجی تحریک کو ملک کی اکثریتی شیعہ آبادی کی حمایت حاصل تھی جو ملک میں جمہوری اصلاحات لانے اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔
بحرین کی مرکزی شیعہ جماعت 'الوفاق' نے حزبِ اختلاف کے کارکنوں کی اپیل مسترد کیے جانے کو حکومتی جبر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر جاری کیے گئے اپنے ردِ عمل میں 'الوفاق' نے کہا ہے کہ "انقلاب کا سفر جاری رہے گا اور سزائوں سے اس میں مزید تیزی آئے گی"۔
جن ملزمان کی اپیلیں مسترد کی گئی ہیں ان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عبدالہادی الخواجہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی حراست کے خلاف گزشتہ برس 110 دن تک بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
دیگر اہم ملزمان میں حزبِ اختلاف کی شیعہ جماعت 'حق موومنٹ' کے رہنما حسان مشائمہ اورعبدالجلیل السنگاس شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ان 13 افراد کے علاوہ بحرین کی اعلیٰ عدالت نے حزبِ اختلاف کے ان سات دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے دائر اپیلیں بھی مسترد کردی ہیں جنہیں ان کی غیرموجودگی میں سزائیں سنائی گئی تھیں اور وہ تاحال مفرور ہیں۔
پیر کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں اعلیٰ عدالت نے ماتحت عدالتوں کی جانب سے ان ملزمان کو دی گئی قید کی سزائیں برقرار رکھی ہیں۔
ماتحت عدالتوں نے 13 میں سے آٹھ افراد کو عمر قید جب کہ دیگر پانچ کو 5 سے 15 برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ سزا پانے والے ان افراد میں سے اکثر کا تعلق شیعہ مکتبِ فکر سے ہے۔
بحرین کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے لیکن حکومت سنی العقیدہ ہے جسے اپنے پڑوسی عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
حزبِ اختلاف کے ان کارکنوں کو بحرین کے حکمران خاندان 'الخلیفہ' کے خلاف 2011ء میں چلنے والی احتجاجی تحریک کے دوران میں سرگرم کردار ادا کرنے پر سزائیں سنائی گئی تھیں۔
استغاثہ نے ان افراد پر حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے "دہشت گرد گروہ" تشکیل کرنے اور "غیر ملکی طاقتوں " کے ساتھ خفیہ روابط قائم کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
"غیر ملکی طاقتوں" سے بحرینی حکام کی مراد شیعہ اکثریتی ملک ایران اور لبنان کی شیعہ مسلح تنظیم حزب اللہ ہوتی ہے۔ ایران کا موقف رہا ہے کہ وہ بحرین کی شیعہ آبادی کی اخلاقی حمایت کرنے کے علاوہ کسی قسم کی مدد نہیں کرتا۔
سنہ 2011 میں چلنے والی احتجاجی تحریک کو ملک کی اکثریتی شیعہ آبادی کی حمایت حاصل تھی جو ملک میں جمہوری اصلاحات لانے اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔
بحرین کی مرکزی شیعہ جماعت 'الوفاق' نے حزبِ اختلاف کے کارکنوں کی اپیل مسترد کیے جانے کو حکومتی جبر کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر جاری کیے گئے اپنے ردِ عمل میں 'الوفاق' نے کہا ہے کہ "انقلاب کا سفر جاری رہے گا اور سزائوں سے اس میں مزید تیزی آئے گی"۔
جن ملزمان کی اپیلیں مسترد کی گئی ہیں ان میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عبدالہادی الخواجہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی حراست کے خلاف گزشتہ برس 110 دن تک بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
دیگر اہم ملزمان میں حزبِ اختلاف کی شیعہ جماعت 'حق موومنٹ' کے رہنما حسان مشائمہ اورعبدالجلیل السنگاس شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ان 13 افراد کے علاوہ بحرین کی اعلیٰ عدالت نے حزبِ اختلاف کے ان سات دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کی جانب سے دائر اپیلیں بھی مسترد کردی ہیں جنہیں ان کی غیرموجودگی میں سزائیں سنائی گئی تھیں اور وہ تاحال مفرور ہیں۔