رسائی کے لنکس

خضدار سے 'لاپتا' ہونے والے قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طالبِ علم حفیظ بلوچ کون ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان کے ضلع خضدار سے قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ مبینہ طور پر لاپتا ہو گئے ہیں پولیس نے لواحقین کی درخواست پر ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ ان کے بڑے بھائی رضا محمد نے الزام لگایا ہے کہ ان کے بھائی کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رضا محمد نے بتایا کہ حفیظ بلوچ تعلیم کے حصول کے علاوہ کسی قسم کے سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے۔

مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے حفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے پسماندہ علاقے باغبانہ سے ہے۔انہوں خضدار سے ہی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں فزکس میں ایم فل کرنے کے لیے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

رضا محمد نے بتایا کہ ان کے بھائی گزشتہ نو ماہ سےاسلام آباد میں تھے۔ ان کی والدہ نے حفیظ بلوچ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر وہ خضدار آئے تھے۔ وہ گزشتہ 10 روز سے خضدار میں موجود تھے اور اس دوران ایک مقامی اکیڈمی میں بچوں کو فزکس پڑھاتے رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آٹھ فروری کو معمول کے مطابق حفیظ بچوں کو اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے جہاں کچھ لوگ آئے اور ان کو اکیڈمی کے اندر سے اپنے ساتھ لے گئے۔ حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے واقعے کے حوالے سے پولیس کو درخواست دے دی ہے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے قبل حفیظ بلوچ نے ایسے کسی واقعے کی شکایت کی تھی۔

دوسری جانب وائس آف امریکہ نے خضدار پولیس کے ایس ایچ او افضل سے فون پر رابطہ کر کے حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے بارے میں جاننے اور تحقیقات پر بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں کوئی جواب نہیں دیا اور فون بند کر دیا۔

پاکستان میں لاپتا افراد کا معاملہ: لوگ کئی، کہانی ایک
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:59 0:00

تاہم مقامی تھانے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے ایک روز بعد ان کے والد اور بھائیوں نے پولیس کو درخواست جمع کرائی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بھی احکامات موصول ہوئے ہیں۔ پولیس مزید تحقیقات کر رہی ہے۔

حفیظ بلوچ کی گمشدگی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھائی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک صارف ظفر موسیانی نے لکھا ہے کہ خضدار سے لاپتا ہونے والا حفیظ بلوچ کون ہیں؟ ان کا تعلق خضدار کے ایک گاؤں کے متوسط گھرانے سے ہے۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے طالب علم ہیں۔

ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ میرے ساتھی، میرے دوست اور میرے سرپرست حفیظ بلوچ اپنے آبائی علاقے کے مختصر دورے پر گئے تھے۔ وہ خضدار سے لاپتا ہو گئےہیں۔ حفیظ قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نے حکومت کو لاپتا ہونے والے مزید 400 افراد کی فہرست فراہم کی تھی۔

تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2020 میں بڑی تعداد میں جبری گمشدہ افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹے البتہ 2021 میں نہ صرف لاپتا ہونے والے افراد کی بازیابی میں کمی آئی البتہ مزید کچھ لوگ لاپتا بھی ہوئے۔

نصر اللہ بلوچ کے بقول 2019 سے اب تک تنظیم 875 لاپتا افراد کی ایک فہرست حکومتِ بلوچستان کو فراہم کر چکی ہے جن میں سے 470 افراد بازیاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ضلع پنجگور اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو سوشل میڈیا پر اُجاگر کرنے والے سماجی کارکن ملک میران بلوچ کی گمشدگی کی اطلاعات بھی سامنے آ چکی ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب لاپتا افراد کمیشن کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 31 جنوری 2022 تک 6163 کیسزنمٹائے ۔ کمیشن کو 31 دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر 8381 کیسزموصول ہوئے تھے جب کہ جنوری میں مزید 34کیس موصول ہوئے جس کے باعث مجموعی کیسز کی تعداد 8415 ہو گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG