چٹاگانگ ٹیسٹ کا پہلا روز بنگلہ دیش کے نام رہا۔ میزبان ٹیم نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے چار وکٹوں کے نقصان پر 253 رنز بنائے۔
دونوں ٹیموں میں ایک ایک کھلاڑی نے ڈیبیو کیا ہے۔ مہمان ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے پاکستان کی جانب سے ڈیبیو کرنے والے 22 سالہ عبد اللہ شفیق کو ٹیسٹ کیپ پہنائی جب کہ بنگلہ دیش کی جانب سے 26 سالہ یاسر علی نے ڈیبیو کیا ہے۔
چٹاگانگ میں جمعے کو شروع ہونے والے میچ میں پاکستان کی ٹیم میں کپتان بابر اعظم اور ڈیبیو کرنے والے عبد اللہ شفیق کے علاوہ عابد علی، اظہر علی، فواد عالم، فہیم اشرف، وکٹ کیپر محمد رضوان، نعمان علی، حسن علی، شاہین شاہ آفریدی اور ساجد خان شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کے کپتان مومن الحق نے ٹیم میں یاسر علی کے علاوہ شادمان اسلام، سیف حسن، نجم الحسین شنٹو، مشفق الرحیم، وکٹ کیپر لٹن داس، مہدی حسن مرزا، تیج الاسلام، ابو جیاد، عبادت حسین کو شامل کیا ہے۔
کون سے کھلاڑی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟
بنگلہ دیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے توجہ ٹیسٹ سیریز پر مرکوز کر دی تھی۔
اگست میں ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرا ٹیسٹ جیتنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم برقرار رکھنے کا امکان پہلے ہی ظاہر کیا جا رہا تھا۔ اور کہا جا رہا تھا کہ عمران بٹ کی جگہ امام الحق یا عبداللہ شفیق کو کھلایا جا سکتا ہے اور دونوں کھلاڑی فائنل الیون کا حصہ ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں فہیم اشرف کی موجودگی سے کپتان کو ایک مستند بلے باز کے ساتھ ساتھ ایک قابل اعتماد بالر بھی دستیاب ہے۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسی ہی کارکردگی لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی نے بھی دکھائی۔ ان کا ٹیم میں بطور اٹیکنگ اسپنر ہونا ساتھی بالرز کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عمیر علوی کے مطابق بعض مبصرین کہتے ہیں کہ حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ دیگر بالرز پر مبنی پیس اٹیک کی موجودگی میں کپتان کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ رواں برس پاکستان کی متعدد کامیابیو ں میں انہی فاسٹ بالرز کا ہاتھ رہا ہے۔
بنگلہ دیش کی ٹیم کو میچ سے قبل ایک نہیں بلکہ کئی بریکنگ نیوز کا سامنا کرنا پڑا۔
آل راؤنڈر شکیب الحسن انجری کی وجہ سے پہلے میچ کے فائنل الیون کا حصہ نہیں جب کہ سابق کپتان محمود اللہ نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔
شکیب الحسن تاحال اس ہیماسٹرنگ انجری سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے ہیں جس نے انہیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے دوران ہی ایونٹ سے باہر کر دیا تھا۔
سلیکشن کمیٹی نے ان کا نام پہلے ٹیسٹ کے لیے اسکواڈ میں شامل تو کیا تھا البتہ فائنل الیون میں ان کی شمولیت کو فٹنس سے بھی مشروط رکھا گیا تھا۔
پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ٹیم کی قیادت کرنے والے محمود اللہ نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سلیکٹرز کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ 35 سالہ کھلاڑی نے 12 سال تک بنگلہ دیش کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کئی کارنامے انجام دیے تھے۔
محمود اللہ اب صرف محدود اوورز کی کرکٹ میں انٹرنیشنل ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
ٹیسٹ اوپنر تمیم اقبال بھی انجری سے صحت یاب نہ ہونے کی وجہ سے بدستور ٹیم سے باہر ہیں۔ تجربہ کار آل راؤنڈر، مستند بلے باز اور اوپنر اگرچہ ٹیم سے باہر ہیں تو سابق کپتان مشفق الرحیم کی فائنل الیون میں واپسی خوش آئند قرار دی جا رہی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے ڈراپ کر دیا گیا تھا۔ تاہم ٹیم میں تجربے کی کمی ایک مرتبہ پھر ان کی واپسی کا سبب بنی۔
بنگلہ دیش کی قیادت ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مومن الحق کر رہے ہیں۔ جب کہ وکٹ کیپر لٹن داس کی واپسی سے بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کا شعبہ مضبوط ہوا ہے۔
پاکستان کا بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میں پلڑا بھاری
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اب تک 11 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے ہیں جس میں پاکستان کو 10 میں کامیابی ملی ہے۔ ایک میچ ڈرا ہوا جب کہ بنگلہ دیش کو ابھی بھی پاکستان کے خلاف پہلی کامیابی کی تلاش ہے۔
دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ 2001 میں ملتان میں کھیلا گیا تھا جس میں پانچ پاکستانی بلے بازوں کی سنچریوں اور دانش کنریا کی تباہ کن بالنگ کے سامنے مہمان ٹیم ایک اننگز اور 264 رنز سے میچ ہاری تھی۔
یہ میچ ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ تھا اور دونوں ممالک کے درمیان پہلی باضابطہ سیریز کے لیے دونوں ٹیموں کو کچھ ماہ انتظار کرنا پڑا۔
جنوری 2002 میں بنگلہ دیش میں کھیلے گئے دونوں میچ میں بھی میزبان ٹیم کو اننگز سے شکست ہوئی جب کہ 2003 میں پاکستان میں کھیلی گئی سیریز میں تینوں میچ پاکستان نے جیتے۔
سیریز کے تیسرے میچ میں انضمام الحق کے ناقابل شکست 138 رنز نے پاکستان کو شکست سے بچایا ورنہ بنگلہ دیش کی ٹیم میچ جیتنے کی پوزیشن میں آگئی تھی۔
جہاں 2011 میں کھیلے گئے دونوں میچ پاکستان کے نام رہے۔ وہیں کھلنا میں کھیلا گیا ٹیسٹ بغیر ہار جیت کے ختم ہوا۔
دوسرے میچ میں پاکستان نے کامیابی حاصل کرکے سیریز اپنے نام کی اور کچھ اسی طرح کا نتیجہ پانچ سال بعد ہونے والے میچ کا رہا جس میں پاکستان نے فتح سمیٹی۔
اب تک دونوں ممالک کے درمیان پانچ باضابطہ سیریز کھیلی گئی ہیں جن میں پانچوں پاکستان کے نام رہیں۔
پاکستان نے بنگلہ دیش میں جاکر تین مرتبہ انہیں شکست دی جب کہ بطور میزبان بھی دونوں سیریز اپنے نام کیں۔
پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم پر امید ہیں کہ یہ سیریز بھی اپنے نام کرکے چوتھی بار بطور مہمان فتح کا تاج اپنے سر پر سمیٹیں گے۔
کئی انوکھے ریکارڈز
دونوں ممالک کے درمیان سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ پاکستان کے محمد حفیظ کے پاس ہے جنہوں نے سات ٹیسٹ میچوں میں تقریبا 60 کی اوسط سے 650 رنز اسکور کیے۔
بنگلہ دیش کی جانب سے یہ ریکارڈ سابق بلے باز حبیب البشر کے پاس ہے جن کے چھ میچوں میں 50 کی اوسط سے 554 رنز سے زیادہ کوئی بھی بنگلہ دیشی کھلاڑی اسکور نہیں کر سکا۔
پاکستان کے یاسر حمید کے پاس ایک انوکھا ریکارڈ ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹیسٹ ڈیبیو پر ایک نہیں بلکہ دو سنچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ۔
انہوں نے یہ کارنامہ 2003 میں کراچی کے مقام پر اس وقت انجام دیا جب وہ دونوں اننگز میں نمبر تین پر بیٹنگ کر رہے تھے۔
بالرز کی بات کی جائے تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچز میں سب سے زیادہ کھلاڑیوں کو آؤٹ پاکستانی لیگ اسپنر دانش کنریا نے کیا۔
دانس کنریا پانچ میچز میں 34 وکٹوں کے ساتھ سب سے نمایاں ہیں۔ ملتان میں کھیلے گئے تاریخی میچ میں ان کی 12 وکٹوں نے پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
بنگلہ دیشی اسپنر محمد رفیق تین میچز میں 17 وکٹوں کے ساتھ اپنے ملک کے سب سے نمایاں بالر ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیریز میں ایک نہیں بلکہ دو ہیٹ ٹرکس بھی ہوئی ہیں۔
پہلی ہیٹ ٹرک 2003 میں آف اسپنر الوک کپالی نے پشاور میں کی جب کہ دوسری ہیٹ ٹرک گزشتہ سال کھیلی جانے والی سیریز میں نسیم شاہ کے نام رہی۔