بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی جانب سے اخبارات کے ایڈیٹروں کے سامنے بعض متنازع بیانات اور وزیر اعظم کی سرکاری ویب سائٹ پران کی اشاعت نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش نے اپنی برہمی اور خدشات کا اظہار کیاہے۔
اگرچہ بھارتی وزیر اعظم کی دفتر کی ویب سائٹ سے ان کابیان اب ہٹا دیاگیا ہے تاہم ہفتے کے روزبنگلہ دیشی اخبارات نے ان کے متنازع بیانات کو اپنے صفحفات پرشائع کیا۔
بدھ کے روز اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ ایک ملاقات میں مسٹر سنگھ نے کہا تھا کہ بنگلہ دیشی لوگ بہت زیادہ بھارت مخالف ہیں اور ان کی 25 فی صد تعداد کی وفاداریاں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کنٹرول میں ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کسی بھی وقت سیاسی صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔
کئی بنگلہ دیشی عہدے داروں نے بھارتی وزیر اعظم کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیر زراعت موتیا چوہدری نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دعوے حقائق پر مبنی نہیں ہیں کیونکہ جماعت اسلامی نے گذشتہ انتخابات میں صرف چار فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔
جماعت اسلامی نے بھی مسٹرسنگھ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے کے حق میں ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کے دفتر سے منسلک عہدے داروں کا کہناہے کہ مسٹر سنگھ کے تبصرے آف دی ریکارڈ تھے اور انہیں جمعے کے روز وزیر اعظم کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیاتھا۔
مسٹر سنگھ کے یہ متنازع تبصرے ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کی قیادت میں ایک اعلی ٰ سطحی وفد چھ جولائی سے ڈھاکہ کا دورہ شروع کررہاہے۔
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم کو اپنے میڈیا کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا ہے جو انہیں ایک بے اثر وزیراعظم قراردیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی سمیت دیگر ملکی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔